حرام کرتے ہوئے طلاق دیتا ہوں کا حکم

سوال کا متن:

زید (فرضی نام ) نے اپنے بیوی کو اختلافات کے باعث کے تحریری طور پر طلاق دی، طلاق دیتے وقت یہ الفاظ لکھے گئے تھے کہ: " اپنی منکوحہ(۔۔۔۔۔۔) کو اپنے تن پر حرام کرتے ہوئے طلاق دیتا ہوں اور اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں، آج کے بعد مسماة امیمہ بی بی سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے اور نہ آئندہ ہو گا " سوال یہ ہے کہ ان الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میں حلفیہ بیان دے سکتا ہوں کہ میں نے صرف ایک طلاق ڈرانے کی نیت سے دی تھی۔میں نے وکیل سے صرف ایک طلاق لکھنے کا کہا تھا، دیگر الفاظ حرام کرتے ہوئے " اور "اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں" وکیل نے اپنی طرف سے لکھے ہیں، دستخط کرنے سے پہلے میں نے یہ تحریر پڑھی تھی، مگر مجھے ان الفاظ کے حکم کا بھی علم نہیں تھا کہ ان سے بھی طلاق ہوتی ہے۔

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں آپ کے حلفیہ بیان کے مطابق اگر واقعتاً آپ نے وکیل سے صرف ایک طلاق لکھنے کا کہا تھا اور اس نے دیگر الفاظ  جیسے"حرام کرتے ہوئے " اور "اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہوں" آپ کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے لکھے تھے، اس کے بعد آپ نے دستخط کرتے  وقت جب یہ تحریر پڑھی  تو اس وقت بھی ان الفاظ سے آپ نے دوسری مستقل طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو اس صورت میں ان الفاظ سے آپ کی بیوی پر صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے،  البتہ سوال میں ذکرکیے گئے الفاظ "حرام کرتے ہوئے "سے  کلام میں شدت آنے کی وجہ سے طلاقِ رجعی بائن بن چکی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، البتہ عدت کے دوران اور عدت کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، اس کے بعد  آپ کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اس لیے آئندہ نکاح کرنے کے بعد  طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔


حوالہ جات

فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 49) دار الفكر،بيروت:

قوله (وإذا وصف الطلاق بضرب من الشدة أو الزيادة كان بائنا مثل أن يقول: أنت طالق بائن أو ألبتة)

(قوله وإذا وصف الطلاق بضرب من الشدة أو الزيادة كان بائنا مثل أن يقول: أنت طالق بائن أو ألبتة. وقال الشافعي: يقع رجعيا إذا كان بعد الدخول) وبقوله قال مالك وأحمد؛ لأن الطلاق شرع معقبا للرجعة فكان وصفه بالبينونة خلاف المشروع فيلغو لأنه تغيير المشروع فصار كسلام من عليه السهو بقصد القطع لا يعمل قصده ويجب عليه سجود السهو، وكقوله: وهبتك على أن يثبت ملكك قبل القبض أو طالق على أن لا رجعة لي عليك.

ولنا أنه وصف الطلاق بما يحتمله وهو البينونة فإنه يثبت به البينونة قبل الدخول في الحال، وكذا عند ذكر المآل وبعده بعد العدة فيقع واحدة بائنة إذا لم تكن له نية أو نوى الثنتين، أما إذا نوى الثلاث فثلاث لما مر من أن اسم الواحدة لا يحتمل العدد المحض، ولو سلم فالفرق أن لا رجعة تصريح بنفي المشروع، وفي مسألتنا وصفه بالبينونة ولم ينف الرجعة صريحا بل يلزم ضمنا.

خلاصة الفتاوى(86/2):

لو قال لامرأته: أنت طالق، ثم قال للناس: "زن بر من حرام است" وعنى به الأول أو لانية له، فقد جعل الرجعي بائنا، وإن عنى به الابتداء فهي طلاق اخر بائن.........ولوقال: كل الطلاق يقع واحدة ولو قال: أكثر الطلاق يقع الثلاث في المدخولة.

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 310) دار الكتاب الإسلامي:                              

 في فتح القدير قيد بكون بائن صفة بلا عطف لأنه لو قال: أنت طالق وبائن أو قال أنت طالق ثم بائن وقال لم أنو بقولي بائن شيئا فهي رجعية ولو ذكر بحرف الفاء، والباقي بحاله فهي بائنة كذا في الذخيرة ۔


مجيب
محمد نعمان خالد
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :76011
تاریخ اجراء :2022-02-12