موروثی زمین میں تعمیر کا حکم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ   ایک شخص کا انتقال 2011کو ہوگیاہے۔اس کے ترکےمیں ایک عدد مکان ،3ہزار اسکوائر فٹ اوردولاکھ اسی ہزارنقد رقم ہیں۔ کچھ عرصہ بعدسیلاب آنے سے مکان ناقابل استعمال رہا،اس لیے مرحوم کے بیٹے نے اس کی دوبارہ تعمیر کی جس پر55لاکھ روپے خرچ ہوگئے،تعمیر کے لیےبیٹے نے 40لاکھ قرض لیے ہیں۔مرحوم کے ورثہ میں ایک بیٹا اورتین بیٹیاں ہیں،ان کے درمیان میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟

تنقیح:بیٹے نے تعمیر بیٹیوں کی اجازت کے بغیر کی ہے۔

جواب کا متن:

مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے  پہلےتجہیزوتکفین مکمل کرنے کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔اسی طرح اگرمرحوم نے ورثہ کے علاوہ کسی کے لیے مال کی وصیت کی ہو تو ایک تہائی تک اس وصیت پر عمل کیا جائےگا۔پھر باقی مال درج ذیل تفصیل کے مطابق ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا:

مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کی قیمت لگاکراس میں سے مرحوم کے بیٹے کو40%اورہر بیٹی کو 20% ملے گا۔

مکان سے اپنا حصہ لینے کی تفصیل یہ ہےکہ اگر بھائی نے بہنوں کی اجازت کے بغیر اس مکان کو دوبارہ تعمیر کی ہے تو بہنوں کے پاس شرعا دو اختیار ہیں:

(1)تعمیر کے بغیر  اس جگہ کی اندازاًَقیمت لگوائیں،وہ قیمت نقد رقم کے ساتھ جمع کرکے اس  میں سے ہربہن٪20 لےلے۔

 (2) اگرمکان اسی حالت میں قابل تقسیم ہے تواس کے پانچ حصے کرلیں ،اس میں سے ہر بہن ایک ایک حصہ لے لے،اور ہر بہن کے حصے میں جس قدر بھائی کی تعمیرآئے اس کے ملبے کی صورت میں لگنے والی قیمت بھائی کو دے دیں۔


حوالہ جات

قال اللہ تعالی:يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين.(سورۃ النساٰء:آیت،10)

قال العلامۃالحصکفی رحمہ اللہ: بنى أحدهما: أي أحد الشريكين بغير إذن الآخرفي عقار مشترك بينهما ،فطلب شريكه رفع بنائه قسم العقار ،فإن وقع البناء في نصيب الباني ،فبها،ونعمت ،وإلا هدم البناء، وحكم الغرس كذلك ،بزازية.

قوله:( بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه؛ لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة، رملي على الأشباه .(ردالمحتار:6/268)

 كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره، ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر  .(ردالمحتار:6/747)

قال العلامۃ نظام الدين البلخي رحمہ اللہ: وذكر شيخ الإسلام في شرح كتاب القسمة:أحدالشريكين إذا بنى في أرض مشتركة بغير إذن شريكه ،فلشريكه أن ينقض بناءه.

(الفتاوی الھندیہ:5/232)


مجيب
عثمان غنی بن مغفور شاہ
مفتیان
فیصل احمد صاحب
شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :74740
تاریخ اجراء :2012-06-12