شوہر، دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک عورت کا انتقال ہوا، ورثہ  میں شوہر، دو بیٹے  اور پانچ بیٹیاں  ہیں، جبکہ ترکہ 84000 روپے ہیں، براہ کرم ورثہ  میں شرعی تقسیم فرمادیں۔

جواب کا متن:

مرحومہ کی تجہیز  و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو  تو ایک تہائی میں وصیت نافذ کرنے کے بعد، مرحومہ  کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو چھتیس  (36) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے شوہر کو نو  (9)، ہر ایک بیٹے کو چھ  (6)، اور ہر ایک بیٹی کو تین  (3) حصے ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے (25) فیصد شوہر کو، (16.66)فیصد ہر ایک بیٹے کو، اور ہر ایک بیٹی کو (8.33) فیصد دیے جائیں گے۔

اس تقسیم کی رو سے (84000) میں سے شوہر کو (21000)، ہر ایک بیٹے کو (14000) اور ہر ایک بیٹی کو (7000) ملیں گے۔

آسانی کے لیے نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

ورثہ

انفرادی  حصہ

مجموعی حصے

فیصدی حصہ

مجموعی فیصدی حصے

شوہر

9

9

25%

25%

بیٹا

6

12

16.66%

33.33%

بیٹی

3

15

8.33%

41.65%

میزان:

-

36

-

100%

رقم کی تقسیم:

ورثہ

انفرادی  حصہ

مجموعی حصے

شوہر

21000

21000

بیٹا

14000

28000

بیٹی

7000

35000

میزان:

-

84000


حوالہ جات

قال اللہ تعالی: يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتۡ وَٰحِدَةٗ فَلَهَا ٱلنِّصۡفُۚ  ... وَلَكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ أَزۡوَٰجُكُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٞ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۚ (النساء: 11،12)

روی البخاري رحمہ اللہ تعالی عن ‌ابن عباس رضي اللہ تعالی عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر.  (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 6753)


مجيب
عبدالعظیم بن راحب خشک
مفتیان
فیصل احمد صاحب
شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :76721
تاریخ اجراء :2022-03-14