قصداجھوٹ بولنےوالےشخص  کےلیےبددعاءکرنا

سوال کا متن:

سوال: میں راضی ہوں کہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم لوں اور اس پر بد دعا کروں جو جان بوجھ کر جھوٹ کہے ۔ کیا یہ نیت جائز ہے؟ آپ کی دعا اور مشورے کا طالب ہوں

 

جواب کا متن:

اگرسسرقسم کےبغیربات ماننے پرتیارنہ ہوتوقرآن پرہاتھ رکھ کرقسم کھائی جاسکتی ہے۔

جہاں تک بات ہےجھوٹ بولنےوالےکےلیےبددعاءکرنےکی تو خود قرآن مجیدمیں جھوٹ بولنےوالےپراللہ کی طرف سےلعنت کاذکرکیاگیاہے،اس اعتبارسےسسرکوسمجھانےکی غرض سےعمومی طورپریہ کہناکہ جوشخص قصداجھوٹ بولےگا،اس پراللہ کی لعنت ہوگی،اس کی تو گنجائش ہوگی،لیکن سسرکومخاطب کرکےکہناکہ تجھ پراللہ کی لعنت ہویہ جائزنہیں،کسی مسلمان پرلعنت بھیجنا،لعن طعن کرناشرعاجائزنہیں حتی کہ کسی گناہ گااورفاسق کوبھی لعن طعن سےمنع کیاگیاہے،موجودہ صورت میں یہ  بھی  ممکن ہےسسر اپنےگمان کےمطابق سچ ہی بول رہےہوں،توآپ کواان کوجھوٹاکہنااورلعنت بھیجنا جائزنہ ہوگا،اس لیےاس سےاحترازکرناچاہیے۔

سسرکواپنےطورپر،اسی طرح خاندان کےدیگربڑےافراد کودرمیان میں ڈال کربات سمجھانےکی کوشش کی جائےتوامیدہےلعن طعن کی ضرورت ہی نہ پڑے۔


حوالہ جات

"الأذكار النووية للإمام النووي " 1 / 374:

45/978 روينا في كتاب الترمذي، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذيء " قال الترمذي : حديث حسن . (19)

"رد المحتار" 12 / 25:

مطلب في حكم لعن العصاة أقول : حقيقة اللعن المشهورة هي الطرد عن الرحمة ، وهي لا تكون إلا لكافر ، ولذا لم تجز على معين لم يعلم موته على الكفر بدليل وإن كان فاسقا۔


مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :76050
تاریخ اجراء :2022-02-16