وقف مدرسہ میں پرائیوٹ اسکول بنانے کا حکم

سوال کا متن:

جو زمین مدرسہ یا مسجد کے لیے وقف کر دی گئی ہو، اس میں پرائیوٹ اسکول بنانا جائز ہے یاناجائز؟ احسن الفتاوی میں مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ ناجائز ہے، لیکن آج کل بڑے بڑے مدارس والوں نے بھی مدرسہ کی وقف جگہ میں پرائیوٹ اسکول بنا رکھے ہیں ۔

جواب کا متن:

وقف شدہ زمین کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ زمین وقف کی گئی ہو اسی مقصد کے لیے وہ زمین استعمال کرنا ضروری ہے، کسی اور مقصد کے لیے اس جگہ کو استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد یا مدرسہ کی انتظامیہ مصالح وقف کے پیشِ نظر اسکول بنائے اور اس اسکول سے حاصل شدہ آمدن اسی مسجد یا مدرسہ پر خرچ کی جائے تو اس کی اجازت ہے۔ لیکن مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین میں کسی شخص کا اپنی ذات کے لیے پرائیویٹ اسکول بنانے کی اجازت نہیں ہے۔


حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 366) دار الفكر-بيروت:

إن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أن الواقف نفسه شرط ذلك حقيقة أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط وقد أخبرني بعض قوام مدرسة إن واقفها كتب ذلك ليجعل حيلة لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم.


مجيب
محمد نعمان خالد
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :77311
تاریخ اجراء :2022-07-05