امام مسجد کا ذاتی رقم سے مسجد کا مکان تعمیر کرنا

سوال کا متن:

امام صاحب کا مکان تعمیر ہو رہا تھا، اس وقت مسجد کا فنڈ کم تھا تو امام صاحب نے اس نیت سے کچھ ذاتی پیسے خرچ کیے کہ میں نے ہی اس مکان میں رہنا ہے، لہذا میں پیسے لگا دیتا ہوں، اب کچھ عرصہ بعد امام صاحب نے اپنی ذمہ داریوں سے استعفی دے دیا ہے، تو کیا اب وہ اپنے لگائے گئے پیسوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟

جواب کا متن:

  امام صاحب کا مسجد کے مکان کی تعمیر میں اپنی رہائش کی نیت سے اپنے ذاتی مال سے رقم خرچ کرنا بظاہر تبرع کی علامت ہے اور مسجد میں اپنی ذاتی رقم تبرعاً خرچ کرنے کی صورت میں مفتی بہ قول کے مطابق وہ رقم فوراً اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مالک کو وہ رقم واپس لینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔لہذا اگر امام صاحب رقم خرچ کرتے وقت مسجد کی انتظامیہ کے سامنے قرض یا خرچ کی گئی رقم واپس لینے کی تصریح نہیں کی تھی تو اس صورت میں اس کو یہ رقم واپس لینے کا حق حاصل نہیں۔کیونکہ قرض  تصریح کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔


حوالہ جات

    الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 359) دار الفكر-بيروت:

 ولو خرب المسجد، وما حوله وتفرق الناس عنه لا يعود إلى ملك الواقف عند أبي يوسف فيباع نقضه بإذن القاضي ويصرف ثمنه إلى بعض المساجد اهـ

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق و  منحة الخالق (5/ 271) دار الكتاب الإسلامي:

وقال أبو يوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه قال وأما الحصر والقناديل فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر أو يبيعه قيم المسجد للمسجد.


مجيب
محمد نعمان خالد
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :77269
تاریخ اجراء :2022-06-27