1. دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
  2. فتاوی

وراثت کا سامان کسی ایک وارث کے لیے بیچنا جائز نہیں

سوال

میرے ابو کا انتقال 26مئى 2022ء ميں ہوا، والدہ کا انتقال چھ سال قبل ہو گیا تھا، والد صاحب کے ورثاء میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، والد صاحب کے نام پر ایک بائیک، ایک گھر، ایک عدد اوقاف کی دکان اور کچھ سیونگ سرٹیفکیٹس ہیں، جن کی مالیت کا اندازہ نہیں، دکان چچا کے نام پر ہے، مگر زندگی میں والد صاحب ہی اوقاف کو پیسے دیتے تھے اور دکان کا کرایہ بھی خود ہی وصول کرتے تھے، والد صاحب اپنی آمدن سے گھر کا خرچہ چلاتے تھے اور ساتھ ہی بھائی کے تین بچوں کا خرچہ بھی اٹھاتے تھے، میرے بھائی ایک جگہ ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرتے تھے، والد صاحب کی وفات کے بعد وہ بھی ختم ہو گیا، ابو کی پنشن اور دکان کا کرایہ بھائی نے وصول کیا ہے، صرف ایک پنشن جو انتقال کے وقت والد صاحب کے اکاؤنٹ میں آچکی تھی وہ استعمال کی ہے، گھر کا سارا سامان والد صاحب کا ہی خریدا ہوا ہے، بھائی اور بھابھی اب اس سامان کو بیچ کر گھر کی ضروریات میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لیے یہ  سامان بیچنا جائز ہے، نیز یہ بھی بتایے کہ دیگر ترکہ کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

وراثت ایک شرعی حق ہے، جس میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوتے ہیں، کسی بھی وارث کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ ترکہ کو استعمال کرنا یا کسی وارث کا حق ضبط کرنا ہرگز جائز نہیں، قرآن وسنت میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے بھائی کے لیے آپ دونوں بہنوں کو حصہ دیے بغیر ترکہ کے سامان کو فروخت کرنا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے، آپ کے بھائی پر لازم ہے کہ وہ تمام ترکہ جلد از جلد تقسیم کرے اور ہر وارث کو اس کے شرعی حصہ کے مطابق اس کا حق دے۔


حوالہ جات

مسند أحمد ت شاكر (2/ 291) دار الحديث – القاهرة:

عن سعيد بن زيد بن عمرو عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، قال ابن نمُير: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أخذ شبرًا من الأرض ظلماً طُوِّقه يومَ القيامة إلى سبع أَرَضين"، قال ابن نمير: "من سَبع أرضين".

 

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان (4/ 91) دار الثقافة العربية، دمشق:

عن الحارث بن البرصاء قال: سمعت رسول الله- صلى الله عليه وسلم- وهو يمشي بين الجمرتين من الجمار يقول: "من أخذ شبرا من مال امرىء مسلم، فليتبوا بيتا من النار"

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (7/ 4984) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:        

ليس المرء حرا بالتصرف في ماله بعد وفاته حسبما يشاء كما هو مقرر في النظام الرأسمالي، وإنما هو مقيد بنظام الإرث الذي يعتبر في الإسلام من قواعد النظام الإلهي العام التي لا يجوز للأفراد الاتفاق على خلافها، فالإرث حق جبري.

 

 


مجيب
محمد نعمان خالد
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :77323
تاریخ اجراء :2022-07-05

فتوی پرنٹ