معتکف کا جنازے کے لیے نکلنا

سوال کا متن:

عشرۂ رمضان كے معتكف كا اگر كوئی محرم رشتے دار یا كوئی عزیز فوت ہوجائے، تو وہ جنازے كے لیے جا سكتا ہے یا نہیں؟ اگر چلا گیا تو اعتكاف ٹوٹے گا یانہیں؟

جواب کا متن:

مفتی بہ قول کے مطابق اعتکاف ٹوٹ جائے گا،البتہ اگر اعتکاف مسنون کی نیت کرتے وقت زبان سے اس کا استثناء کیا تھا تو نکلنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ،لیکن ایسی صورت میں ایسا اعتکاف نفل بن جائے گا،اعتکاف مسنون میں استثناء نہیں ہوتا۔ (احسن الفتاوی:ج۴،ص۵۰۹)البتہ اگر مسنون اعتکاف   کو بھی اپنے اوپر زبان سے کہہ کر لازم کردے اور ساتھ ہی زبان سے استثناء بھی کردے تو مسنون اعتکاف واجب ہوجائے گا اور استثناء سے نفل بھی نہیں بنے گا،لیکن علامہ رافعی رحمہ اللہ تعالی نےایجاب واستثناء کے لیے نیت قلبی کو بھی کافی قرار دیا ہے۔


حوالہ جات

الفتاوى الهندية (1/ 212)

ولا يخرج لعيادة المريض كذا في البحر الرائق ولو خرج لجنازة يفسد اعتكافه، وكذا لصلاتها ۔۔

۔۔۔إذا أراد إيجاب الاعتكاف على نفسه ينبغي أن يذكر بلسانه، ولا يكفي لإيجابه النية بالقلب ذكره شمس الأئمة كذا في النهاية وهكذا في الخلاصة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 448)

وفي التتارخانية عن الحجة لو شرط وقت النذر أن يخرج لعيادة مريض وصلاة جنازة وحضور مجلس علم جاز ذلك فليحفظ

 (قوله لو شرط) فيه إيماء إلى عدم الاكتفاء بالنية أبو السعود

قال الرافعی: الظاھر صحۃ الاکتفاء بالنیۃ فان نیۃ تخصیص العام جائز وھذا منہ فی المعنی


مجيب
نواب الدین
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :76843
تاریخ اجراء :2022-05-21