1. دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
  2. فتاوی

غیر مستحق بے روزگار کو زکوۃ دینے کا حکم

سوال

میرے سب سے بڑے ماموں کسی قسم کا کوئی کام نہیں کرتے اپنے گھر کا نظام چلانے کے لیے۔ ان کی فیملی میں بیوی اور تین بیٹیاں ہیں اور مکان بھی ان کا اپنا ذاتی ہے،رشتہ دار، بھائی بہنیں اور جاننے والے لوگ اپنے زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات کے پیسوں سےگھر کا راشن لے دیتے ہیں اور کبھی کبھار راشن کے بجائے نقد رقم (زکوٰۃ و صدقات ) بھی دے دیتے ہیں، ماموں کو ہر کوئی سمجھاتا ہے کہ خود کماو ۔مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ اب مجھ سے کام نہیں ہوتا ،میری قسمت میں کمائی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میری ممانی کے پاس زیورات کی صورت میں تین سے چار یا پانچ تولہ سونا موجود ہےجو کہ ماموں بیچنے نہیں دیتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ان کے پاس سونا تو موجود ہے تو کیا ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟ اور اگر زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی تو کیا اگر کسی نے ان کو زکوٰۃ دے بھی دی ہے تو اس دینے والے شخص کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے یا نہیں؟ از راہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

جب تک  کوئی شرعی مستحق نہ ہو تواسے زکوۃ کا پیسہ دینا جائز نہیں اور جو شخص معلوم ہونےکے باوجود ایسےغیر مستحق شخص کو زکوۃ دے گا اس کی زکوۃ ادا نہ ہوگی،البتہ سونا اگر ممانی کی ملکیت ہو اور اس کے ساتھ نقدی بھی ہو جس کے بعد  چاندی کے اعتبار سے نصاب مکمل ہوتا ہو تو ایسی صورت میں ممانی کو تو زکوۃ نہیں دے سکتے ،لیکن ماموں کو(جبکہ ان کی ملکیت میں  بقدر نصاب زکوۃ  مال نہ ہو،) زکوۃ دے سکتے ہیں۔


حوالہ جات

۔۔۔۔۔۔


مجيب
نواب الدین
مفتیان
محمد حسین خلیل خیل صاحب
سعید احمد حسن صاحب


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :77166
تاریخ اجراء :2022-06-18

فتوی پرنٹ