سوال کا متن:
ایک لڑکی کی شادی ہوئی، لڑکی کے سسرال والے دین دار نہیں تھے ۔لڑکی حافظ قران تھی، لڑکی کو قرآن کی تلاوت کا موقع فراہم نہیں کرتے تھے ۔جس کی وجہ سے لڑکی کا قرآن کچا ہو گیا تھا ۔اس لیے خلع کی ڈگری لی ہے، جبکہ فیصلہ مسلمان خاتون جج نے کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خلع کی ڈگری معتبر ہے؟
وضاحت: لڑکی کے والد نے بتایا کہ سسرال والوں کے قرآن یاد کرنے کا وقت نہ دینے کی وجہ سے خلع کی ڈگری لی ہے۔
جواب کا متن:
حنفیہ کےنزدیک حدود وقصاص کے علاوہ مسلمان خاتون کا شریعت کے اصولوں کے مطابق کیا گیا شرعاً معتبر اور نافذ ہوتا ہے، لیکن سوال کے ساتھ منسلکہ فیصلہ میں فسخِ نکاح کی کوئی معتبر وجہ ذکر نہیں کی گئی اور لڑکی کے والد کے بیان کے مطابق سسرال والوں کے قرآن یاد کرنے کا وقت نہ دینے کی وجہ سے خلع کی ڈگری لی ہے۔ جبکہ یہ بھی شرعاً یک طرفہ نکاح فسخ کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے منسلکہ فیصلہ پر زبانی یا تحریری طور پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا تو اس صورت میں منسلکہ یک طرفہ عدالتی فیصلہ شرعا معتبر نہیں اور اس کے وجہ سے فریقین کے درمیان نکاح ختم نہیں ہوا، لہذا ان کے درمیان نکاح بدستور قائم ہے اور لڑکی کا اپنے شوہر سے طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 106) دار احياء التراث العربي – بيروت:
ويجوز قضاء المرأة في كل شيء إلا في الحدود والقصاص"اعتبارا بشهادتها. وقد مر الوجه.
العناية شرح الهداية (7/ 297)
قال (ويجوز قضاء المرأة في كل شيء إلا في الحدود والقصاص إلخ) قضاء المرأة جائز عندنا في كل شيء إلا في الحدود والقصاص اعتبارا بشهادتها، وقد مر الوجه: أي في أول أدب
القاضي أن حكم القضاء يستقى من حكم الشهادة؛ لأن كل واحد منهما من باب الولاية، فكل من كان من أهل الشهادة يكون أهلا للقضاء وهي أهل للشهادة في غير الحدود والقصاص فهي أهل للقضاء في غيرهما. قيل أراد به ما مر قبل بخطوط من قوله؛ لأن فيه شبهة البدلية فإنه يدل على أن ما فيه شبهة البدلية لا يعتبر فيهما، وشهادتها كذلك كما سيجيء وقضاؤها مستفاد من شهادتها.
مجيبمحمد نعمان خالد
مفتیان آفتاب احمد صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب