امام الحرمین ابن الجوینی کی امارت وخلافت سے متعلق ایک عبارت کی فقہی تحقیق اور اس کے بارے میں فقہائے عصر حاضر کا موقف

سوال کا متن:

ہمیں امام الحرمین کی ایک عبارت کے بارے میں اس  زمانے کے اہلِ فقہ وفتوی کی تحقیق معلوم کرنے کی ضرورت پڑی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسے مسئلہ سے متعلق ہے جو عمومِ بلوی کے تحت آتا ہے، اور اس میں ہمارے علاقے کے اہلِ علم کو ابتلاء زیادہ پیش آ رہا ہے، اس لئے اس بارے میں ہمیں فقہاء معاصرین خاص طور پر فقہاء مذہب حنفی کا موقف معلوم کرنے کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی۔

جیساکہ حضراتِ مشائخ کو معلوم ہے کہ امام الحرمین (478ھ) کی کتاب "غیاث الأمم فی التیاث الظلم" کا اصل موضوع ہی یہ ہے کہ جب کسی زمانے میں مسلمانوں کا کوئی والی اور سلطان نہ رہے تو امام مملکت سے متعلق فرائض کی انجام دہی کا طریقہ کیا ہو گا؟ اس کتاب کا مختصر اور معروف نام "الغیاثی" ہے۔

موضوع سے عین متعلق ہونے کی وجہ سے اس میں جہاد کا تذکرہ بھی آیا، پہلے تو الرکن الاول کے باب ثامن میں عام تذکرہ کیا ہے، جس میں لکھا ہے:

"وأما الجهاد فموكول إلى الإمام، ثم يتعين عليه إدامة النظر فيه، ...، فيصير أمر الجهاد في حقه بمثابة فرائض الأعيان،..."(غياث الأمم: ص 188 تحقيق مصطفى حلمي وفؤاد عبد المنعم، طبعة جديدة ومزيدة، الناشر: مؤسسة الريان بيروت، ودار الزاحم الرياض).

آگے کتاب کے رکن ثانی (القول في خلو الزمان عن الإمام) کی القسم الثالث میں لکھا ہے:

"وفي تمليك الرعايا أمور الدماء وشهر الأسلحة وجوه من الخبل، لا ينكره ذوو العقل، وإذا لم يصادف الناس قواماً بأمورهم يلوذون به، فيستحيل أن يؤمروا بالقعود عما يقتدرون عليه من دفع الفساد..." (غياث الأمم:ص: 289) .

اسی باب میں اس سے پہلے کی عبارت میں انہوں نے اور صاف لکھ دیا ہے:

"أما ما يسوغ استقلال الناس فيه بأنفسهم، ولكن الأدب يقتضي فيه مطالعة ذوي الأمر ومراجعة مرموق العصر، كعقد الجمع، وجر العساكر إلى الجهاد، واستيفاء القصاص في النفس والطرف، فيتولاه من الناس، عند خلو الدهر وشغور الزمان، طوائف من ذوي النجدة والبأس في نقض (قطاعِ)

الطرق والسعاةِ في الأرض بالفساد، فهو من أهم أبواب الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر..."(غياث الأمم:ص 289)

آگے اس کی کیفیت بھی بتائی:

"وقد قال العلماء: لو خلا الزمان عن السلطان فحق على قطان كل بلدة، وسكان كل قرية، أن يقدموا من ذوي الأحلام والنهى وذوي العقول والحجى من يلتزمون امتثال إشاراته وأوامره وينتهون عن مناهيه ومزاجره ..... "(غياث الأمم: ص 289-290)

اور آگے جاکر  بیت المال سے متعلق ذمہ داریاں سلطان کی عدم موجودگی میں کون ادا کریں گے؟ یہ بتاتے ہوئے انہوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق ایک بہت عام تجویز پیش فرمادی، فرمایا:

"فإذا شغر الزمان عن الإمام وخلا عن سلطان ذي نجدة واستقلال وكفاية ودراية، فالأمور موكولة إلى العلماء، وحق على الخلائق على اختلاف طبقاتهم أن يرجعوا إلى علمائهم، ويصدروا في جميع قضايا الولايات عن رأيهم، فإن فعلوا ذلك فقد هدوا إلى سواء السبيل، وصار علماء البلاد ولاة العباد.... (غياث الأمم:ص 291)

امام الحرمین کی بعض تجاویز سے بعد کے فقہاء نے تعرض فرمایا ہے، مثلا کمال الدین دمیری (808ھ) نے "النجم الوھاج شرح المنہاج" ج 10 ص 159 میں مذکورۃ الصدر تیسری عبارت نقل فرمائی، اسی طرح حنفیہ میں شیخ عبد الغنی نابلسی (1143ھ) نے "الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ" ج 1 ص 351-352 میں علم کی بحث میں اختصارا اسے نقل فرمایا، اگر چہ مطبوعہ نسخہ میں "الغیاثی" کی جگہ "العتابی" لکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے "فتاوی رضویہ" میں متعدد جگہوں میں منقول عنہ بات کو امام زین الدین عتابی رح کی طرف نسبت کردی گئی، حالانکہ وہ امام الحرمین کی بات ہے، جو ان کی کتاب الغیاثی سے لی گئی ہے۔

امام الحرمین کے مذکورہ بیان سے متعلق بندہ کا سوال یہ ہے کہ:

1- خلو الزمان عن الامام کا مفہوم کیا ہے؟

اس کا ایک مفہوم تو یہ ہو سکتا ہے کہ جب ملک میں فوضویت کا دور چل رہا ہو، کہ وہاں کوئی امیر یا سلطان یا صدرمملکت ہے ہی نہیں۔

دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی ایسا امیر المؤمنین یا متبع شریعت سلطان موجود نہ ہو جو کم ازکم اصولی طور پر تنفیذ شریعت کا عقیدہ رکھتا ہو، اس کا حاصل یہ ہوگا کہ جن ممالک میں جمہوری نظام سیاست رائج ہو یا اور صریح عبارت میں جہاں سیکولر نظام حکومت نافذ ہو، چاہے علی سبیل الإعلان ہو یا جمہوریت کے درِپردہ ہو، وہ ملک مسلمانوں کے حق میں خالی عن الامام تصور کیا جائے گا۔

آج کل بعض لوگ مسلم ممالک کو ان کے جمہوری طرزِ حکومت ہونے کی وجہ سے اور ان میں قرآن و سنت کے بجائے قانون وضعی کی بالادستی ہونے کی وجہ سے دار الحرب سمجھتے ہیں اور ان کے حکام کو مرتد سمجھتے ہیں، ان کا کہنایہ ہے کہ علماء اور عوام پر ضروری ہے کہ وہ منظم ہو کر اور قوت حاصل کرکے  یا بے سروسامانی کے با وجود ان حکومتوں کے ساتھ مسلح جہاد کریں۔ مجدد الف ثانی کا واقعہ روشن دلیل ہے۔

کیا واقعتاً امام الحرمین کا تصور خلوِ زمان عن الامام مسلم ممالک کی موجودہ صورت حال پر منطبق ہوتاہے؟  اگرنہ ہو تو اس کا اصل مصداق کون سا ہوگا؟

جواب کا متن:

امام الحرمین ابو المعالی عبدالملک بن عبداللہ جوینی رحمہ اللہ کی خلو الزمان عن الامام کی عبارت کا مطلب سمجھنے سے پہلے امامت اور خلافت کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ شرعی اصطلاح میں امامت وخلافت کا نظام چلانے والے شخص کو ہی امام اور خلیفہ کا نام دیا جاتا ہے، خلافت کا مفہوم بیان کرتے ہوئےحضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی "ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء" میں فرماتے ہیں:

مسئله در تعریفِ خلافت: هی الریاسة العامة فی التصدی لإقامة الدین بإحیاء العلوم الدینیة وإقامة أرکان الإسلام والقیام بالجهاد وما یتعلق به من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفیئ والقیام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نیابةً عن النبی صلی الله علیه وسلم. (إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء:1/13)

ترجمہ: خلافت وہ ریاستِ عامہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہونے کی حیثیت سے علوم دینیہ کو زندہ رکھنے ،  ارکانِ اسلام کو قائم کرنے ،  جہاد اور متعلقاتِ جہاد (جیسے لشکروں کو ترتیب دینا، مجاہدین کو وظائف دینا، مالِ غنیمت کو ان پر تقسیم کرنا) کو بجالانے ،  عہدۂ قضاء کے فرائض انجام دینے،  حدود کو قائم کرنے،  مظالم کو دور کرنے اور لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دینے اور برے کاموں سے منع کرنے کے ذریعے دین کو قائم و نافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔

اس تعریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لفظِ "خلافت" اصطلاحی معنوں میں صرف اس حکومت کے لیے خاص ہے جو دین کو قائم ونافذ کرنے کے لیے وجود میں آئے۔ اور جو حکومت ایسی نہ ہو اس پر اگرچہ عربی لغت کے اعتبار سے خلافت کے لفظ کا اطلاق کردیا جاتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح کے اعتبار سے وہ خلافت نہیں کہلاتی۔ چنانچہ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ نے "مقدمۂ ابنِ خلدون" میں حکومت کی تین قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔  (1) ملک طبیعی (2) ملک سیاسی (3) خلافت۔ اور اس تقسیم میں انہوں نے لفظ "خلافت" کا اطلاق صرف اس حکومت پر فرمایا ہے جس کی بنیاد دین وشریعت پر ہو، باقی دو اقسام کے لیے انہوں نے ملک یا ملوکیت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ ان تینوں اقسامِ حکومت کی تعریفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الملك الطبیعی" هو حمل الکافة علی مقتضی الغرض والشهوة، و "(الملك) السیاسی" هو حمل الکافة علی مقتضی النظر العقلی فی جلب المصالح الدنیویة ودفع المضار، و "الخلافة" هی حمل الکافة علی مقتضی النظر الشرعی فی مصالحهم الأخرویة والدنیویة الراجعة إلیها…......... وإذ قد بينا حقيقة هذا المنصب، وأنه نيابة عن صاحب الشريعة في حفظ الدين، وسياسة الدنيا به، تسمى "خلافة" و "إمامة"، والقائم به "خليفة" و "إماماً".  (مقدمة ابن خلدون:1/66۔365)

ترجمہ: "(حکومت کی پہلی قسم) "طبیعی حکومت" لوگوں کو شہوت اور اغراضِ نفسانیہ کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔

(دوسری قسم) " سیاسی حکومت" تمام لوگوں کو دنیوی مصلحتیں حاصل کرنے اور دنیوی نقصانات سے بچانے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔

 (تیسری قسم) "خلافت" لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانے کا نام ہے، جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں اور  دنیوی مصلحتیں بھی پوری ہوں جن کا نتیجہ بھی آخر کار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے اس منصب کی حقیقت اور یہ بات بیان کردی کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیوی امور کے لیے تدابیر اختیار کرنے میں صاحبِ شریعت کی نیابت ہے تو اس کو "خلافت" اور "امامت" کہاجاتا ہے، اور جو شخص اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے متعین ہو اس کو "خلیفہ"اور "امام" کہا جاتا ہے۔"

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ"خلافت" کے لیے دوسرا لفظ "امامت" اور "خلیفہ" کے لیے دوسرا لفظ "امام" یا "امیر" بھی استعمال ہوتا ہے، نیزاستاذ محمد نجیب المطیعی "تکملۃ المجموع شرح المہذب للنوویؒ" میں فرماتے ہیں:

المراد بالإمام الرئيس الأعلى للدولة، والإمامة والخلافة وإمارة المؤمنين مترادفة، والمراد بها الرياسة العامة في شئون الدين والدنيا.

 (تکملة المجموع شرح المهذب: 19/ 191)

ترجمہ:  "امام" سے مراد حکومت کا سربراہِ اعلیٰ ہوتا ہے اور "امامت"، "خلافت" اور "إمارة المومنین" تینوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ ان سے مراد دینی اور دنیوی معاملات میں عمومی سربراہی ہوتی ہے۔

الغرض "خلافت" اس نظامِ حکومت کا نام ہے جو اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نظامِ شریعت کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے  قائم کی جائے اور شرعی معنی میں صرف اسی طرح کے نظامِ حکومت کے سربراہ کو "خلیفہ"، "امام" اور "امیر" کہاجاسکتا ہے۔ یہ بات من جملہ اور دلائل کے خود قرآنِ کریم سے بھی اس طرح ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں حکومت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اس بات کو انتہائی وضاحت سے ذکر فرمادیا ہے کہ اسلامی حکومت کا مقصد "دینِ الٰہی" کا قیام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ } [الحج: 41]

ترجمہ: یہ (جن کی صفات اس سے پہلے کی آیات میں بیان کی گئیں) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے حکومت کے مقاصد میں نماز کو قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا بیان فرمایا ہے۔ جس میں شریعت کے تمام احکام کو نافذ کرنا خود بخود داخل ہوگیا۔اس سے معلوم ہوا کہ شرعی معنی کے اعتبار سےخلیفہ اور امام کا اطلاق اسی امیر اور حاکم پر ہو گا جو اپنی ریاست اور حکومت میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرے، جو حاکم  احکامِ شرع کو اپنی سلطنت میں نافذ نہ کرے شرعی اعتبار سے اس کو خلیفہ اور امام المسلمین کا لقب نہیں دیا جائے گا۔

موجودہ دور میں اصولی اعتبار سے امیر مقرر کرنے کا مروّجہ جمہوری طریقہ اگرچہ مثالی شرعی طریقہ نہیں ہے، کیونکہ شریعت نے امام کے تقرر کا حق امت کے ہر فرد کو نہیں دیا، بلکہ صرف اربابِ حل وعقد کو یہ اختیار دیا ہے۔ انہی اربابِ حل وعقد کو اصطلاحِ شریعت میں شوری کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ  اگر کوئی شخص جمہوری طریقہ سےحکومت کے عہدے پر فائز ہو جائے تو  کیا اس پر خلیفہ کے احکام جاری ہوں گے یا نہیں؟ تو اس کی متقدمین کی کتب میں کہیں تصریح نہیں ملی اور اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ ماضی میں عوام الناس کی رائے اور ووٹنگ کے ذریعہ امیر مقرر کرنے کا طریقہ رائج نہیں تھا۔

 لیکن بہر حال اکابر علمائے کرام کی عبارات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص بھی امیر کہلانے کا حق دار ہو گا اور اس کی حکومت بھی مسلمان حکومت کہلائے گی، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے امیر بننے کی درج ذیل چار صورتیں ذکر فرمائی ہیں:

1۔اہلِ حل وعقد کا کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینا، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سقیفہ بنی ساعدہ میں بعض جید صحابہ کرام رضی اللہ کا بیعت کرنا۔

2۔شوری یعنی اربابِ حل وعقد کا کسی شخص کو امیر منتخب کرنا، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ چھ حضرات کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا۔

3۔خلیفہ کا اپنی زندگی میں کسی شخص کے بارے میں خلافت کے عہدہ کی وصیت کر دینا، جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اپنی زندگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنا۔

4۔ کسی شخص کا زبردستی غلبہ حاصل کر کے خود ہی حکومت کا منصب سنبھال لینا۔

مذکورہ بالا چاروں صورتوں کی تفصیل اور ان کی مثالیں وغیرہ فقہی کتب وغیرہ میں موجود ہیں،(ديكھيے عبارات:1تا4)گزشتہ زمانے میں چونکہ جمہوری طرزِ حکومت رائج نہیں تھا، اس لیے اس کو بیان نہیں کیا گیا، لیکن ان چار طریقوں میں سے چوتھا طریقہ جوتغلّب اور استیلاء کا بیان فرمایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوری طریقہ پر بنایا گیا حکمران بھی امیر شمار ہو گا، کیونکہ تغلب اور استیلاء کے ذریعہ عوام وخواص کے مشورہ کے بغیرزبردستی حکومت سنبھالنے والے شخص کو جب فقہائے کرام رحمہم اللہ نے امیر شمار کرکے  جائز امور میں اس کی اطاعت کو واجب اورعام حالات میں اس کے خلاف خروج و بغاوت کو حرام قرار دیا ہے تو عوام کی اکثریت کی  رائے سے بننے والا حکمران بدرجہ اولیٰ امیراور حاکم کہلانے کا حق دار ہو گا۔

اس لیے ہماری رائے کے مطابق استیلاء اور تغلّب کے طریقہ پر قیاس کرتے ہوئے جمہوری طرز پر ووٹنگ کے ذریعہ بننے والا حکمران بھی امیر کہلائے گا اور شرعی لحاظ سے موجودہ حکومتیں بھی مسلمان حکومتیں  شمار ہوں گی  اور  شرعاًجائز امور میں ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی اطاعت واجب ہو گی اور ان کے خلاف خروج وبغاوت کی  ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔اس لیے امام الحرمین عبدالملک بن عبداللہ جوینی رحمہ اللہ کی عبارت عصرِ حاضر کی موجودہ صورتِ حال پر منطبق نہیں ہوتی، بلکہ  عبارات کی روشنی میں اس کا مطلب بظاہر یہ معلوم

 ہے کہ جب مسلمانوں کا دنیا میں کوئی بھی امیر موجود نہ ہو اور ہر جگہ فوضویت اور لاقانونیت کا دور دورہ ہو تو ایسی صورت میں بامرِ مجبوری عوام کے مسائل کو حل کرنے لیے علمائے کرام کی جماعت کو والی شمار کیا جائے گا، لیکن اگر کسی جگہ مسلمان حکمران موجود ہو، خواہ وہ استیلاء یا جمہوری طرز پر بننے والا امیر ہی ہو تو اس صورت میں علمائے کرام کا اپنے آپ کو ولاة الامور شمار کرکے ان کو رائج الوقت قانون ہاتھ  میں لینے کی قطعاً اجازت نہیں ہو گی۔خود امام الحرمین رحمہ اللہ کی  سوال میں ذکر کی گئی عبارت " فإذا شغر الزمان عن الإمام وخلا عن سلطان ذي نجدة واستقلال وكفاية ودراية، فالأمور موكولة إلى العلماء " سے یہی مفہوم مترشح ہوتا ہے، کیونکہ اس میں انہوں نے شریعت کے احکام نافذ کرنے والے اور صالح خلیفہ کی قید نہیں لگائی،اسی طرح تغلّب کے ذریعہ بننے والے حکمران کی نفی بھی نہیں کی،  بلکہ مطلقاً سلطان کا ذکر کیا ہے، جس میں بظاہر تغلّب اور استیلاء کے ذریعہ بننے والا سلطان بھی شامل ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام الحرمین رحمہ اللہ نے دوسری جگہ امامت کی شرائط میں سے اجتہاد کا تذکرہ کرتے ہوئے  فرمایا کہ اگر دین میں امامت کا درجہ رکھنے والا شخص موجود نہ ہو، البتہ اس کی بجائے انتہائی ہوشیاروسمجھ دار، بہادر، قناعت کرنے والا اور حکومت کے معاملات سرانجام دینے میں خود مختار شخص موجود ہو تو وہ بھی امارت کے لیے متعین کیا جا سکتا ہے اور اس کے احکام بھی ایسے ہی نافذ ہوں گے جیسا کہ مجتہد شخص کے نافذ ہوتے ہیں، دیکھیے عبارت:

غياث الأمم في التياث الظلم: (مادة:440ص:416)دارالمنهاج، بيروت:

فلو لم نجد من يتصدى للإمامة في الدين ولكن صادفنا شهما ذا نجدة وكفاية واستقلال بعظائم الامور على ما تقدم وصف الكفاية فيتعين نصبه في أمور الدين والدنيا وتنفذ أحكامه كما تنفذ أحكام الإمام  الموصوف (المخصوص)۔

نیز امام الحرمین رحمہ اللہ کی اس عبارت کو نقل کرنے والے حضرات علامہ کمال الدین محمد بن موسی دمیری شافعی (المتوفى:  808ھ) اور علامہ نابلسی حنفی رحمہما اللہ نے بھی بغیرکسی تفصیل کے مطلقاً ہی سلطان کا ذکر فرمایا ہے، بلکہ علامہ کمال الدین دمیری کی عبارت میں صرف "سلطان ذی کفایة "کا ذکر ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست وحکومت کو سنبھالنے والا کوئی بھی مسلمان حکمران موجود ہو تو علمائے کرام کو ولاة الامور شمار نہیں کیا جائے گا اورعوام كی طرح  ان پر بھی موجودہ حکمران کی اطاعت واجب ہو گی، دیکھیے عبارت:

النجم الوهاج في شرح المنهاج (10/ 159) الناشر: دار المنهاج، جدة:

والثاني: إذا خلا الزمان عن إمام وعن سلطان ذي كفاية .. فأطلق الإمام في (الغياثي) أن الأمور موكولة إلى العلماء، ويلزم الأمة الرجوع إليهم، ويصيرون ولاة العباد، فإن عسر جمعهم على واحد. استقل أهل كل ناحية باتباع علمائهم، فإن كثر علماء ناحية .. فالمتبع أعلمهم، فإن استووا واتفقوا على أحدهم . فذاك، وإن تنازعوا أقرع.

امام الحرمین رحمہ اللہ کی عبارت کو اپنے عموم پر رکھتے ہوئے ہر قسم کا امام مراد لینےکی ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ  بہت سی روایات میں فاسق وفاجر امیرکے خلاف خروج وبغاوت کو ناجائز اور جائز امور میں اس کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے، چنانچہ  صحیح مسلم کی ایک حدیث میں وارد ہے:

صحيح مسلم (3/ 1482،کتاب الامارة، باب خیار الأئمة و شرارھم)   دار إحياء التراث العربي، بيروت:

"ألا من ولی عليه وال فراه یأتی شیئاً من معصیة الله فلیکره ما یأتی من معصیة الله ولا  ینزعن یدا من طاعة.''

''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔

صحيح البخاري (9/ 47) باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «سترون بعدي أمورا تنكرونها» دارطوق النجاة:

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من كره من أميره شيئا فليصبر، فإنه من خرج من السلطان شبرا مات ميتة جاهلية»

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے ،کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی باہر  نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔

مذكوره بالا احاديث  کی بنیاد پرہی امت کے اکابر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے فاسق وفاجر حکمران کے خلاف خروج اور بغاوت کو حرام قرار دیا ہے،  چنانچہ امام ِابن مفلح فرماتے ہیں:

الآداب الشرعية (1/ 175)  للعلامة ابن المفلح' فصل: الإنکار علی السلطان والفرق بین البغاة والإمام الجائر:

''علیکم بالإنکار بقلوبکم و لا تخلعوا یدا من طاعة ولا تشقوا عصا المسلمین ولا تسفکوا دمائکم و دماء المسلمین معکم وانظروا فی عاقبة أمرکم واصبروا حتی یستریح بر ویستراح من فاجر.وقال لیس هذا یعنی نزع أیديهم من طاعته "صوابا"هذا خلاف الآثار.''

''تم پر حکمران کے عقیدے کا دل سے انکار واجب ہے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ نہ کرو اور اپنا اورمسلمانوں کا خون نہ بہاؤ۔ اپنے اس فعل کے انجام پر غور کرو اور صبر سے کام لو یہاں تک کہ نیکوکار راحت پائے اور فاسق و فاجر سے راحت حاصل کی جائے۔  اوریہ بھی کہا کہ حکمران کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا درست نہیں ہے اور روایات کے خلاف ہے۔''

مذکورہ احادیث اور ائمہ کرام کی تصریحات سے واضح ہوا کہ مسلم حکمران خواہ کیسا ہی فاسق وفاجر ہو اس کے خلاف بغاوت وخروج کی اجازت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ امام الحرمین رحمہ اللہ کی عبارت اس زمانے سے متعلق ہے جب دنیا میں مسلمانوں کا کسی بھی قسم کا حکمران موجود نہ ہو، لیکن اگر کوئی حکمران موجود ہو، خواہ وہ خود تغلب کے ذریعہ حاکم بنا ہو یا جمہوری طرز پر ووٹنگ کے ذریعہ اس کو حاکم بنایا گیا ہو، اسی طرح خواہ وہ نیک ہو یا فاسق وفاجر بہر صورت جائز امور میں  اس کی اطاعت واجب ہو گی، البتہ فاسق وفاجر ہونے کی صورت  میں اس کے غلط اور خلافِ شرع کاموں پر نکیر کرنا ضروری ہے۔

جہاں تک سوال ميں ذكر كی گئی  تفصیل کے مطابق مسلم جمہوری ممالک کے حکمرانوں کو مرتد سمجھنے کا تعلق ہے تو  یہ بات سراسر شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ جب تک کسی حکمران کی طرف سے شریعت کے صریح اور قطعی حکم کا انکار سرزد نہ ہو اس پر کفر کا حکم لگانا درست نہیں، باقی عملی اعتبار سے کسی چیز کے خلافِ شرع ہونے سے کفر لازم نہیں آتا اور عصرِ حاضر کی صورتِ حال سے  بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ مسلم حکمران عقیدہ کے اعتبار سے مذہبِ اسلام کو ہی درست  اور سچا مذہب سمجھتے ہیں، البتہ کفریہ طاقتوں کے زور اور غلبہ کی وجہ سے عملاً اسلامی احکام کی تنفیذ نہیں کر پاتے، لہذا عمل میں کوتاہی کی وجہ سے ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، چنانچہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ جمہوریت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مغربی جمہوریت جس کی بنیاد عوام کی حکمرانی کے تصور پر ہے، جو كہ اسلام کے قطعی خلاف ہے، کیونکہ اسلام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کے عقیدے پر قائم ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قرآن وسنت کے تابع قرار دے تو اس کو کفر یا گمراہی نہیں کہہ سکتے، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے مغربی جمہویت کو جوں کا توں قبول نہیں کیا۔

 (فتاوی عثمانی:ج:3، ص:506، كتاب الامارة والسياسة، مكتبة معارف القران كراچی)

نیزجمہوریت سے ہٹ کر  اگر بالفرض کسی مسلم حکمران کا عقیدہ کفریہ ہو تو بھی اس وقت تک اس کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، جب تک وہ اپنے کفریہ عقیدے کا اظہار نہ کرے، کیونکہ عقیدے کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کے احوال کو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں،  اسی لیے خروج عن طاعة الامام کے مسئلہ میں حدیثِ پاک میں کفر ِبوّاح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، یعنی جب تک صریح کفر کا ظہور نہ ہو اس وقت تک امام ِوقت کی اطاعت سے نکلناجائز نہیں۔لہذا موجودہ مسلم جمہوری ممالک کے حکمرانوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف مسلح جہاد کرنے کی قطعاً اجازت نہیں اور یہ درحقیقت خروج اور بغاوت کے حکم میں ہو گا،جس کی بکثرت صریح اور صحیح احادیث میں ممانعت اور مذمت وارد ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ سوال میں جو حضرت مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ کا حوالہ ذکر کیا گیا تو اس کا جواب یہ کہ ان زمانے کے حکمران جلال الدین اکبر کی طرف سے بعض امور صریح اسلام کے خلاف سرزد ہوئے تھے، یہاں تک کہ اس نے نیا دینِ الہی(اس كو دينِ اكبری بھی كہا جاتا ہے) ایجاد کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود  ہماری معلومات کے مطابق حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ نے اکبر بادشاہ کے خلاف مسلح جہاد نہیں کیا،کیونکہ تاریخ میں ان کے مسلح جہاد کرنے کا ذکر ہمیں کہیں نہیں ملا،[1] بلکہ انہوں نے عوام وخواص میں بیانات اور اپنےوعظ کے ذریعہ ایک منظم اصلاحی تحریک چلائی تھی، جس میں ہزاروں لوگ شریک تھے، جس کے نتیجہ میں اکبر بادشاہ کے بیٹے جہانگیر نے حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ کے ہاتھ پر توبہ کی اور بادشاہ کے دربار  میں سجدہ کرنے کی قبیح رسم ختم  ہوئی، گائے ذبح کرنے کی پابندی ختم کر دی گئی، اس کے علاوہ  شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی۔  

1۔شرح المقاصد في علم الكلام للعلامة سعد الدين التفتازاني(2/ 272):

وتنعقد الإمامة بطرق:……… الثالث القهر والاستيلاء فإذا مات الإمام وتصدى للإمامة من يستجمع شرائطها من غير بيعة واستخلاف وقهر الناس بشوكته انعقدت الخلافة له، وكذا إذا كان فاسقا أو جاهلا على الأظهر إلا أنه يعصى بما فعل….. ويجب طاعة الإمام مالم يخالف حكم الشرع سواء كان عادلا أو جابرا.

2۔رد المحتار للعلامة  ابن عابدين الشامي  ( 4/ 263) دارالفكر ، بيروت:

قوله (يصير إماماً بالمبايعة) وكذا باستخلاف إمام قبله وكذا بالتغلب والقهر كما في شرح المقاصد. قال في المسايرة: ويثبت عقد الإمامة إما باستخلاف الخليفة إياه كما فعل أبو بكر رضي الله تعالى عنه وإما ببيعة جماعة من العلماء أو من أهل الرأي والتدبير،….ثم قال لو تعذر وجود العلم والعدالة فيمن تصدى للإمامة وكان في صرفه عنها إثارة فتنة لا تطاق حكمنا بانعقاد إمامته كي لا تكون كمن يبني قصرا ويهدم مصرا، وإذا تغلب آخر على المتغلب وقعد مكانه انعزل الأول وصار الثاني إماما. وتجب طاعة الإمام عادلا كان أو جائرا إذا لم يخالف الشرع.

3۔ مغني المحتاج شرح منهاج الطالبین: (4/130.132.131) للعلامة محمد خطيب الشريبيني:

قوله ( وتنعقد الإمامة ) بثلاثة طرق: أحدها ( بالبيعة ) بفتح الموحدة كما بايع الصحابة أبا بكر رضي الله تعالى عنهم أجمعين واختلف في عدد المبايع ( والأصح ) لا يتعين عدد بل المعتبر ( بيعة أهل الحل والعقد من العلماء والرؤساء ووجوه الناس الذين يتيسر اجتماعهم ) لأن الأمر ينتظم بهم ويتبعهم سائر الناس ولا يشترط اتفاق أهل الحل والعقد من سائر الأقطار البعيدة ولا يشترط عدد كما يوهمه كلامه بل لو تعلق الحل والعقد بواحد مطاع كفت بيعته ولزمه الموافقة والمتابعة…… ( و ) ثانيهما ينعقد ( باستخلاف الإمام) شخصا عينه في حياته ليكون خليفته بعده ويعبر عنه بعهدت إليه كما عهد أبو بكر إلى عمر رضي الله تعالى عنهما بقوله بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما عهد أبو بكر خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم عند آخر عهده من الدنيا وأول عهده بالآخرة في الحالة التي يؤمن فيها الكافر ويتقي فيها الفاجر إني استعملت عليكم عمر بن الخطاب فإن بر وعدل فذاك علمي به وعلمي فيه وإن جار وبدل فلا علم لي بالغيب والخير أردت ولكل امرىء ما اكتسب { وسيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون } وانعقد الإجماع على جوازه….. (فلو جعل ) الإمام ( الأمر ) في الخلافة ( شورى )

هو مصدر بمعنى التشاور ( بين جمع فكاستخلاف ) حكمه إلا أن المستخلف غير معين ( فيرتضون أحدهم ) بعد موت الإمام فيعنونه للخلافة كما جعل عمر رضي الله تعالى عنه الأمر شورى بين ستة علي والزبير وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص وطلحة فاتفقوا على عثمان رضي الله عنه…..

( و ) ثالثها (باستيلاء) شخص متغلب على الإمامة ( جامع للشروط ) المعتبرة في الإمامة على الملك بقهر وغلبة بعد موت الإمام لينتظم شمل المسلمين، أما الاستيلاء على الحي فإن كان الحي متغلباً انعقدت إمامة المتغلب عليه، وإن كان إماماً ببيعة أو استخلاف لم تنعقد إمامة المتغلب عليه ( وكذا فاسق وجاهل ) تنعقد إمامة كل منهما مع وجود بقية الشروط بالاستيلاء ( في الأصح ) وإن كان عاصياً بذلك لما مر.

4۔المغني لابن قدامة  المقدسي (10/ 49) مكتبة القاهرة:

مسألة : قال أبو القاسم رحمه الله : وإذا اتفق المسلمون على إمام فمن خرج عليه من المسلمين يطلب موضعه حوربوا ودفعوا بأسهل ما يندفعون به وجملة الأمر أن من اتفق المسلمون على إمامته وبيعته ثبتت إمامته ووجبت معونته لما ذكرنا من الحديث والاجماع وفي معناه من ثبتت إمامته بعهد النبي صلى الله عليه و سلم او بعهد إمام قبله اليه فان أبا بكر ثبتت امامته باجماع الصحابة على بيعته وعمر ثبتت امامته بعهد ابي بكر اليه وأجمع الصحابة على قبوله. ولو خرج رجل على الإمام فقهره وغلب الناس بسيفه حتى أقروا له واذعنوا بطاعته وتابعوه صار إماماً يحرم قتاله والخروج عليه؛ فإن عبد الملك بن مروان خرج على ابن الزبير فقتله واستولى على البلاد وأهلها حتى بايعوه طوعاً وكرهاً فصار إماماً يحرم الخروج عليه، وذلك لما في الخروج عليه من شق عصا المسلمين وإراقة دمائهم وذهاب أموالهم، ويدخل الخارج عليه في عموم قوله عليه السلام : [ من خرج على أمتي وهم جميع فاضربوا عنقه بالسيف كائناً من كان ] فمن خرج على من ثبتت إمامته بأحد هذه الوجوه باغياً وجب قتاله………………………….…. الخ

[1] درج ذیل دو کتابوں میں حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ کی  خدمات اور دین اکبری کے خلاف چلائی جانے والی تحریک پر تفصیلی گفتگو ہے:

’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۔ اس کتاب کی جلدچہارم مکمل  حضرت مجددصاحب رحمہ اللہ کے احوال اور خدمات پرہے۔

’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ از حضرت مولانا سید محمد میاں دہلویؒ ۔ اس کتاب کی پہلی جلد  میں اس حوالے سے کافی تفصیل موجودہے۔


حوالہ جات

...


مجيب
محمد نعمان خالد
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :77306
تاریخ اجراء :2022-05-29