نکاح اور رخصتی کے درمیان وقت کی کوئی قید ہے؟

سوال کا متن:

کیا شریعت میں نکاح کے بعد رخصتی کی مدت کی کوئی حد مقرر ہے کہ اس سے پہلے پہلے رخصتی ہو؟ اکثر جب منگنی کی جگہ نکاح کردیا جاتا ہے تو اقارب کا اعتراض ہوتا ہے کہ اگر رخصتی جلدی نہیں تو نکاح کیوں کیا جا رہا ہے؟ منگنی اس سے بہتر ہے۔

جواب کا متن:

شریعت نے نکاح کے بعد رخصتی کی کوئی متعین مدت مقرر نہیں کی، بلکہ نکاح کے بعد طرفین جب مناسب سمجھیں، رخصتی کرسکتے ہیں۔ البتہ جہیز جمع کرنے کے انتظار میں، یا ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے کی نیت سے تاخیر کرنا یا بلاوجہ زیادہ تاخیر کرنا بھی درست نہیں۔ لیکن اگر دولہا اور دلہن دونوں کسی مصلحت یا عذر اور مجبوری کی وجہ سے نکاح کے فورا بعد رخصتی نہ کرانے پر راضی ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس بات کی کوئی اصل نہیں کہ رخصتی جلدی نہ ہونے کی صورت میں منگنی نکاح سے بہتر ہے۔


حوالہ جات

صحيح البخاري، ط: قدیمی (2/775):

حدثنا قبيصة بن عقبة حدثنا سفيان عن هشام بن عروة عن عروة تزوج النبي صلى الله عليه وسلم عائشة وهي ابنة ست سنين، وبنى بها وهي ابنة تسع، ومكثت عنده تسعا.


مجيب
عبداللہ ولی
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :79272
تاریخ اجراء :2023-02-01