سوال کا متن:
کچھ دن پہلے میری بیوی نے مجھ پر شک کیا اور کہا قسم کھاؤ، میں نے کلمہ کی قسم کھائی کہ میں نے 18 ستمبر سے آج تک غلط کام نہیں کیا۔ اس کے بعد بیوی نے بولا: اگر آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے تو اس سے نکاح پر اثر پڑے گا،میں نے بیوی کو بولا کہ میں نے قسم کھالی ہے اب نکاح کے الفاظ بیچ میں نہ لاؤ۔ اب میں اور بیوی دونوں پریشان ہیں کہ کیا نکاح پر کوئی فرق پڑے گا؟ جبکہ قسم سچی ہے اور میں نے قسم میں نکاح کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔
اگر شوہر سے قسم ٹوٹ جائے مستقبل میں تو کیا پھر بھی نکاح پر فرق پڑے گا؟ جبکہ قسم حاضر کی تھی۔
جواب کا متن:
طلاق مخصوص الفاظ کے استعمال سے واقع ہوتی ہے، محض قسم سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔صورتِ مسؤلہ میں شوہر نے جو قسم کھائی ہے چاہے وہ سچی ہو یا جھوٹی، اگر واقعی الفاظِ طلاق یا ایسے الفاظ جو عرف میں طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں، استعمال نہیں کیے تو نکاح پر اثر نہیں پڑے گا اور نکاح بدستور قائم رہے گا، نیز شوہر نے جو قسم کھائی ہے وہ زمانہ ماضی کی قسم ہے جس کا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 230)
وألفاظه: صريح، وملحق به وكناية(ومحله المنكوحة)وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ وركنه لفظ مخصوص
البناية شرح الهداية (5/ 280)
الطلاق: عبارة عن حكم شرعي يرفع القيد للنكاح بألفاظ مخصوصة
الفتاوى الهندية (8/ 47)
( أما تفسيره ) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق ( وأما ركنه ) فقوله : أنت طالق ونحوه كذا في الكافي
مجيباحمد الرحمن بن محمد مستمر خان
مفتیانسیّد عابد شاہ صاحب
سعید احمد حسن صاحب