طلاق دیتے وقت ان شاءاللہ کہنے کا حکم

سوال کا متن:

اس مسئلے کے بارے حضرات مفتیاں کرام کیا فرماتے ہیں کہ امیر محمد ولد محمد خان نے اپنی زوجہ ثمینہ ناز بنت راجہ محمد اسحاق18 ستمبر 2022 کو وائس میسج کیا جس میں یہ الفاظ تھے۔ ’’میں امیر محمد ولد محمد خان ثمینہ ناز بنت راجہ محمد اسحاق کو ان شاء الله طلاق اول رجعی دیتا ہوں ‘‘اور اسکے بعد ہم میاں بیوی کے طور پر مزید اکٹھے نہیں رہ سکتے۔" یہ وائس میسج دو گواہوں کو دو مرتبہ سنا کر اس پر گواہ بنایا اور اگلے دن گواہان کی موجودگی میں دو مرتبہ پھر درج ذیل الفاظ کہے۔ ’’میں امیر محمد ولد محمد خان اپنی بیوی ثمینہ نازبنت راجہ محمداسحاق کو ان شاء الله طلاق دے رہا ہوں ‘‘پھر اسی دن اسٹامپ فروش سے تین اسٹامپ پیرلے کر طلاق کے تین نوٹس تیار کروادیے، تینوں نوٹسز طلاق (اول، دوم، سوم) پر خود دستخط کیے انگوٹھا ثبت کیا اور گواہان سے بھی دستخط کروائے اور انگوٹھے ثبت کرائے ان میں سے ایک نوٹس زوجہ اور یونین کونسل کو بھیجا اور دوسرا اور تیرا بعد میں بھیجنے کا عزم ظاہر کیا مگر بھیجوائے نہیں ۔ نوٹس اول کی کاپی ساتھ لف ہے، دوسرے اور تیسرے نوٹس کی کاپی امیر محمد فراہم نہیں کر رہا۔برائے مہربانی مندرجہ بالا صور تحال میں آیا امیر محمد کی بیوی کو طلاق ہوئی ہے یا نہیں شریعت کی رو سے ہمیں آگاہ کیا جائے

جواب کا متن:

         زبان سے یا تحریری طورپر طلاق دیتے وقت اگر کوئی شخص متصلاً(ملاکر فوراً) ان شاء اللہ کہہ دے یا لکھ دے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

            لہذا صورتِ مسئولہ  میں  شوہر کی طرف سے مذکورہ جملہ ’’ میں امیر محمد ولد محمد خان ثمینہ ناز بنت راجہ محمد اسحاق کو ان شاء الله طلاق اول رجعی دیتا ہوں ‘‘ کہہ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی، اگرچہ یہ جملہ تین بار ہی کیوں نہ کہا  یا لکھا ہو۔


حوالہ جات

العناية شرح الهداية (4/ 136)

(وإذا قال الرجل لامرأته: أنت طالق إن شاء الله تعالى متصلا لم يقع الطلاق)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 366)

(قال لها أنت طالق إن شاء الله متصلا) إلا لتنفس أو سعال أو جشاء أو عطاس أو ثقل لسان أو إمساك فم أو فاصل مفيد لتأكيد أو تكميل أو حد أو طلاق، أو نداء كأنت طالق يا زانية أو يا طالق إن شاء الله صح الاستثناء بزازية وخانية.

فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 136)

(قوله وإذا قال لامرأته: أنت طالق إن شاء الله إلخ) وكذا إذا قال: إن لم يشأ الله أو ما شاء الله أو فيما شاء الله أو إلا أن يشاء الله أو إن شاء الجن أو الحائط وكل من لم يوقف له على مشيئة لم يقع إذا كان متصلا فلا يفتقر إلى النية، حتى لو جرى على لسانه من غير قصد لا يقع.


مجيب
عدنان اختر بن محمد پرویز اختر
مفتیان
آفتاب احمد صاحب
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :80022.62
تاریخ اجراء :2023-03-12