سوال کا متن:
کیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ایک شخص نے اپنی اہلیہ کی (حقیقی) بھانجی کو دہوکے سے( خالہ کے علاج و معالجہ اورخدمت کے بہانے ) کورٹ میں لے جا کر نکاح کر لیا اور جب کہ اس وقت لڑکی کی خالہ زندہ ہے اور خالو کے نکاح میں ہے ،سوال یہ ہے کہ آیا یہ نکاح درست ہے یا نہیں ؟
جواب کا متن:
واضح رہے کہ خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے خالو کا بھانجی سے نکاح کرنا ناجائز و حرام ہے، صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صرحتہً ممانعت وارد ہوئی ہے، لہذا یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ، اس لیے بچی کو فورا ً مذکورہ شخص سے علیحدہ کیا جائے ۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 12)
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها»
صحيح مسلم (2/ 1029)
(1408) وحدثني أبو معن الرقاشي، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا هشام، عن يحيى، أنه كتب إليه عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنكح المرأة على عمتها، ولا على خالتها»
الاختيار لتعليل المختار (3/ 87)
قال: (ولا يجمع بين المرأة وعمتها أو خالتها) ؛ للحديث المشهور، وهو قوله - عليه الصلاة والسلام -: «لا تنكح المرأة على عمتها ولا على خالتها، ولا على بنت أخيها ولا على بنت أختها؛ فإنكم إذا فعلتم ذلك فقد قطعتم أرحامهن» .
مجيبعدنان اختر بن محمد پرویز اختر
مفتیانمفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب