سوال کا متن:
اگر کسی شخص کی بیوی اس کی زندگی میں فوت ہو جائے اور اس کی بیوی کے نام کچھ جائیداد ہو اور وہ اس کے ورثاء کے نام ہو جائے لیکن وہ شخص باقی ورثاء کو یہ کہہ کر ان تمام کا حصہ بیچ دے کہ میں اس کی رقم آپ کو ادا کروں گا لیکن پھر خود فوت ہو جائے اس کا یہ قرض کیسے ادا ہو گا؟جبکہ تمام امور کے ذمہ دار بیٹے ہوں، مکمل لین دین بیٹے کرتے ہوں تو وہ شخص مقروض شمار ہو گا یا بیٹے ؟
۱) کیا تمام ورثاء کے لیے اس قرض کی تفصیل جانناضروری ہے کہ کس کا حصہ کتنے کا فروخت ہوا ؟
۲)باقی ورثاء میں سے کسی ایک سے اجازت لی ہو تو کیا وہ سب کی طرف سے اجازت شمار ہو گی؟
جواب کا متن:
صورتِ مسئولہ میں شرعی اعتبار سے میراث تقسیم ہونے کے لیے جائیداد ورثاء کے صرف نام ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس پر ہر ایک کا قبضہ کرنا بھی ضروری ہے، دیگر ورثاءکی رضامندی کے بغیر کسی ایک وارث کا تمام جائیداد پر قبضہ کرکے یہ کہنا (میں یہ جائیداد بیچ کر باقی ورثاءکو اس کی رقم دوں گا) جائز نہیں ہے، ایسا شخص دیگر ورثاء کا حصہ نہ دینے کی وجہ سے گنہگار ہوگا ۔لہذا مذکورہ شخص کے انتقال کے بعد ان کےبیٹوں پر لازم ہے کہ ورثاءاور ان کے حصوں کی تفصیل جان کر ان کے درمیان تقسیم کر دے۔
حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (5/ 566)
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الاول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 285)
(قوله: ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه وكل واحد منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي) لأن تصرف الإنسان في مال غيره لا يجوز إلا بإذن أو ولاية.
مجيبعدنان اختر بن محمد پرویز اختر
مفتیان آفتاب احمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب