زمین کو ٹھیکہ پر دینا

سوال کا متن:


مفتیانِ کرام! سائل کا سوال یہ ہے کہ
ہمارے علاقے میں دریا کے کنارے پر بجری اور ریت ہوتی ہے۔ اور جس کی زمین میں ہو وہ دوسری پارٹی کو ایک سال یا کم زیادہ مدت کے لیے ٹھیکہ پر دیتا ہے۔ اس کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اس متعین مدت میں جتنی ریت یا بجری نکال سکے نکال لے۔ اس میں کمی زیادتی کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟

جواب کا متن:

مذکورہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ اجارہ فاسدہ ہے۔اجارہ( کسی چیز کو کرایہ پر دینا) تب درست ہوتا ہے جب عقد منافع پر ہو، لیکن مذکورہ صورت میں منافع کی بجائے عین چیز یعنی ریت اور بجری وغیرہ حاصل کرنے کے لیے زمین کو کرایہ پر دیا جا رہا ہے۔
اس معاملے کو درست کرنے کی صورت یہ ہے کہ زمین کو ٹھیکے پر دینے کی بجائے ریت اور بجری کو بیچا جائے اور فی ٹرالی قیمت طے کر لی جائے۔ جتنی ٹرالیاں ریت اور بجری کی نکل آئیں اتنی قیمت وصول کر لی جائے۔

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 8)
(قوله فيستأجر أرضه الخالية) أي بياضها بدون الأشجار، وإنما لا يصح استئجار الأشجار أيضا لما مر أنها تمليك منفعة، فلو وقعت على استهلاك العين قصدا فهي باطلة۔

المبسوط للسرخسي (16/ 31)
[باب الإجارة الفاسدة]
(قال - رحمه الله - رجل استأجر من رجل ألف درهم بدرهم كل شهر يعمل بها فهو فاسد، وكذلك الدنانير وكل موزون، أو مكيل)؛ لأن الانتفاع بها لا يكون إلا باستهلاك عينها ولا يجوز أن يستحق بالإجارة استهلاك العين ولا أجر عليه؛ لأن العقد لم ينعقد أصلا لانعدام محله فمحل الإجارة منفعة تنفصل عن العين بالاستيفاء۔




مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :63852
تاریخ اجراء :2019-05-30