تاکیداً دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ کا حکم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس بارے میں کہ
ایک آدمی نے اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں نے آپ کو طلاق دے دی ہےاور میں تمہیں نہیں رکھتا اور سمجھ لو کہ تم فارغ ہو۔ جبکہ مذکورہ آدمی نے آخری دو جملوں میں اول جملہ کی تفصیل و وضاحت کی ہے۔
گزارش ہے کہ شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن:

مذکورہ صورت میں اس شخص کے اپنی بیوی کو یہ کہنے سے کہ "میں نے آپ کو طلاق دے دی ہے" ، ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ لیکن چونکہ اس شخص نے اس کے بعد طلاق کے کنائی الفاظ، میں تمہیں نہیں رکھتا، استعمال کیے ہیں، تو اگر ان الفاظ سے اس کی نیت دوسری طلاق کی نہیں ہے، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے، تو اس صورت میں پہلی طلاقِ رجعی بائن بن گئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران یہ شخص رجوع نہیں کرسکتا، ہاں عدت کے اندر یا عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتے ہیں۔
اگر اس شخص کی مراد آخری دو جملوں سے اول جملہ کی تفصیل و وضاحت نہ تھی بلکہ اس نےان جملوں سے الگ طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس صورت میں اس کی بیوی کو دو بائن طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
حوالہ جات

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 497)
إذا طلق امرأته تطليقة، ثم قال بعد ذلك: زن برمن حرام رست، يُسألُ الزوج: عنيت بقولك: زن فرض حرام است الحرمة بتلك التطليقة أو هذا الكلام، إن قال: عنيت بتلك التطليقة، فقد جعل الطلاق الرجعي بائناً، فلا تقع تطليقة أُخرى. وإن قال هذا الكلام مثلاً، فهو طلاق آخر ثاني.

مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :63827
تاریخ اجراء :2019-05-30