سوال کا متن:
علمائے کرام سے پوچھنا تھا کہ اگر زید اور عمرو آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں اور زید عمرو کو کوئی مال بیچتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ جب آپ کی مرضی ثمن ادا کردینا۔ کیا یہ بیع درست ہوگی؟
نیز اگر درست ہے تو عمرو ثمن کب ادا کرے گا؟
کیا زید پھر رقم کے مطالبے کا مجاز ہوگا؟
o
نیز اگر درست ہے تو عمرو ثمن کب ادا کرے گا؟
کیا زید پھر رقم کے مطالبے کا مجاز ہوگا؟
o
جواب کا متن:
مذکورہ صورت میں اگر زید اور عمرو نے بیع کرتے وقت بیع کے نقد ہونے کی صراحت کی ہو یا نقد اور ادھار کی وضاحت نہ کی ہو تو ان دونوں صورتوں میں یہ بیع نقد ہوگی اور بیع درست ہوگی۔اور زید جب چاہے ثمن کامطالبہ کرسکتا ہے، اور عمرو کو بھی تب فوراً ثمن ادا کرنی ہوگی۔
لیکن اگر انہوں نے بیع کرتے وقت ادھار ہونے کی صراحت کردی ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں۔ اس لیے کہ ادھار میں ثمن کی ادائیگی کی مدت طے کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جاتواللہ سبحانہ و تعالی اعلم
مجيبمتخصص
مفتیانمفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
لیکن اگر انہوں نے بیع کرتے وقت ادھار ہونے کی صراحت کردی ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں۔ اس لیے کہ ادھار میں ثمن کی ادائیگی کی مدت طے کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جاتواللہ سبحانہ و تعالی اعلم
مجيبمتخصص
مفتیانمفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب