اقالہ کے بعد مبیع کا عیب دار نکل آنا

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ
ہماری ایک گائے تھی۔ اس کو ہم نے ساٹھ ہزار روپے کے عوض بیچ دیا۔ جن لوگوں نے اس کو خریدا ہے تو انہوں نے اب ہم کو ہماری گائے واپس لینے اور اپنے پیسے واپس دینے کو کہا ہے۔
جب انہوں نے ہماری گائے واپس کردی تو وہ پہلے جیسی نہیں تھی۔ مثلاً وہ پہلے جس طرح دودھ دے رہی تھی، اب اس طرح نہیں دے رہی۔ اور اس کے دودھ میں خون بھی آتا ہے۔
ان لوگوں نے گائے کی صحت کا صحیح طریقہ سے خیال نہیں رکھا جیسے ہم نے رکھا تھا۔ اب ان لوگوں نے ہماری گائے واپس کردی ہے۔
اب ہم نے ان کے 60 ہزار کے بدلے 50 ہزار واپس کر دیے اور 10 ہزار روپے ہم نے ان سے کاٹ لیے۔ تو کیا یہ ہمارے لئے جائز ہے؟

جواب کا متن:

اقالہ (یعنی بیع کو ختم کرنے) کی صورت میں اگر مبیع میں کوئی عیب پیدا ہوگیا ہو تو اس عیب کے بقدر ثمن میں کمی کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر گائے میں پیدا شدہ عیوب کی وجہ سے قیمت میں دس ہزار کی کمی ہوگی تو آپ کے لیے ان لوگوں سے اتنی رقم کاٹنا جائز ہے۔ لیکن اگر ان عیوب کی وجہ سے قیمت میں کمی دس ہزار سے کم ہو تو بقیہ رقم ان کو لوٹانا ضروری ہوگا۔
حوالہ جات

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 71)
قال - رحمه الله - (وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب وجنس آخر لغو ولزمه الثمن الأول) وهذا عند أبي حنيفة؛ لأنه لما كانت الإقالة عنده فسخا والفسخ يرد على غير ما يرد عليه العقد كان اشتراط خلاف الثمن الأول باطلا وشرط لعدم جواز اشتراط الأقل عدم التعيب عند المشتري،

وأما إذا تعيب عنده فيجوز بالأقل فيجعل الحط بإزاء ما فات بالعيب، ولهذا يشترط أن يكون النقصان بقدر حصة ما فات بالعيب ولا يجوز أن ينقص أكثر منه۔

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :63817
تاریخ اجراء :2019-05-30