میراث کی تقسیم

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
میرے شوہر (مولانا عبداللہ ) کی شہادت آج سے تقریباً سات سال پہلے 2011ء میں ہوئی۔انتقال کے وقت میرے علاوہ میری بیٹی (فاطمہ) اور ان کے والدین (میرے ساس ،سسر)اور ان کے چھ بھائی (میرے دیور)موجود تھے۔انتقال کے وقت ان پر کچھ قرضے تھے،جن میں سے کچھ انتقال کے بعد ان کےترکہ میں سے ادا کیے گئے،اور کچھ تاحال ادا نہیں کیے گئے۔ان کی ملکیت میں ایک پلاٹ بھی تھا ،جو تاحال اسی حالت میں ہے۔ستمبر 2017ء تک میں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے والد کے گھر زندگی بسر کرتی رہی۔ اور اپنی بیٹی کے تمام اخراجات میں خود برداشت کرتی رہی۔اکتوبر 2017 ء میں، میں نے دوسری شادی کی ،میرے شوہر نہ ہمارے خاندان سے ہیں ،نہ میرے پہلے شوہر کے خاندان سے ہیں۔جبکہ میری بیٹی تاحال میرے والد صاحب کے پاس ہی ہیں۔
مذکورہ پس منظر کے بعد آپ سےجواب مطلوب ہے:
مرحوم کا ترکہ ورثا میں کیسے تقسیم ہوگا؟

جواب کا متن:

میراث میں بیٹی کو کل میراث کا نصف یعنی کہ ٪50حصہ ملے گا اور ماں کو کل میراث کا چھٹا حصہ یعنی کہ66.16٪ حصہ ملے گا،اور بیوی کومیراث آٹھواں حصہ یعنی 12.5%حصہ ملے گا، جبکہ باپ کو باقی بچ جانے والی کل میراث یعنی کہ 20.83% ملے گا(چھٹا حصہ16.66% اصحاب الفروض میں شامل ہونے کی وجہ سے اور باقی میراث4.17% ان حصوں کی تقسیم کے بعد عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا۔)
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 770)
(وللأب والجد) ثلاث أحوال الفرض المطلق وهو (السدس) وذلك (مع ولد أو ولد ابن) والتعصيب المطلق عند عدمهما والفرض والتعصيب مع البنت أو بنت الابن.
مختصر القدوري (ص: 245(
والثمن: فرض الزوجات مع الولد وولد الابن
مختصر القدوري (ص: 245(
والسدس: فرض سبعة: لكل واحد من الأبوين مع الولد أو ولد الابن
مختصر القدوري (ص: 246)
باب الحجب وتحجب الأم من الثلث إلى السدس بالولد أو بأخوين
مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :62069
تاریخ اجراء :2019-03-24