قسطوں پر خرید وفروخت جائز ہے

سوال کا متن:

محترم جناب مفتی صاحب،
کیا کسی چیز کو قسطوں پر فروخت کرنا جائز ہے، جبکہ قسطوں کی صورت میں نقد سے زیادہ قیمت لگائی جا رہی ہو؟

جواب کا متن:

کسی چیز کے نقد اور اُدھار قیمت میں فرق ہونا منع نہیں ، مگر اُدھار معاملہ کی صورت میں قیمت اور مدت معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے، اور قسطیں بھی مقرر ہوں، اور پھریہ نہ ہو کہ کسی قسط کے وقتِ متعین پر وصول نہ ہو نے سے قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے، یا وصول شدہ رقوم ہی ضبط ہوجائیں، اورخریدی ہوئی چیز بھی ہاتھ سے چلی جائے، ایسی صورت ہو تو شرعاً یہ معاملہ درست نہیں، بلکہ اس میں سود اور جوا ہوگا، اور ان دونوں کی ممانعت نصوص میں مذکور ہے۔
حوالہ جات
لما في شرح المجلۃ لسلیم رستم بازرحہ اللہ تعالی: "البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ، یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتاجیل والتقسیط ." (ص۱۲۴، ۱۲۵، رقم المادۃ :۲۴۵،۲۴۶)
قال الشیخ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتھم العالیۃ: " : أما الأئمۃ الأربعۃ وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبت العاقدان بانہ بیع مؤجل بأجل معلوم وبثمن متفق علیہ عند العقد ... أما ما یفعلہ بعض الناس من تحدید ثمن البضاعۃ علی أساس سعر النقد وذکر القدر الزائد علی أساس أنہ جزء من فوائد التاخیر في الأداء فإنہ ربا صراح. " ( بحوث فی قضایا فقہیۃمعاصرۃ: 1/14)


مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی فیصل احمد صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :63301
تاریخ اجراء :2018-04-05