ماہ صفر کومنحوس سمجھنا، پیشاب کے ساتھ منی نکلنےسے غسل واجب ہوگا؟، رکعت اورسورت کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا

سوال کا متن:

السلام علیکم،
براہ مہربانی ان سوالات میں رہنمائی فرمائیں:
1) میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس اور غير محفوظ ہے۔ کیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے؟
2) اگر پیشاب کے ساتھ منی بھی نکل آئے تو کیا غسل واجب ہوگا؟
3) نماز میں فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص شروع کرنے سے پہلے کیا بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے؟ اسی طرح اگر جلسہ سے اٹھ کر تیسری رکعت شروع کر رہا ہوں تو کیا بسم اللہ پڑھنا ضروری ہوگا؟

جواب کا متن:

1) زمانۂ جاہلیت میں مشرکینِ مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃ ً رد فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ "لا صفر"، یعنی اسلام میں ماہِ صفر کے منحوس ہونے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لہذا اس مہینے میں نکاح وغیرہ کرنا بھی جائز ہے اور دوسرے کام بھی بلا جھجک کیے جا سکتے ہیں۔ اس قسم کے اوہام سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے۔
2) اگر منی شہوت کے ساتھ نکلی ہو تو غسل واجب ہے اور اگر شہوت کے بغیر بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا۔
3) ہر رکعت میں فاتحہ سےپہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے اور فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے اور تیسری رکعت میں جلسے اٹھ کر فاتحہ شروع کرنے سے پہلے سنت ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ أبو داود رحمہ اللہ تعالی: عن بقية قال قلت لمحمد ... فقوله: صفر. قال سمعت أن أهل الجاهلية يستشئمون بصفر. فقال النبى صلى الله عليه وسلم: « لا صفر ». قال محمد: وقد سمعنا من يقول: هو وجع يأخذ فى البطن، فكانوا يقولون: هو يعدى، فقال: « لا صفر ».
(سنن ابی داود: 2/190)

ذکر فی الفتاوی الھندیۃ: رجل بال، فخرج من ذكره مني، إن كان منتشرا عليه الغسل وإن كان منكسرا عليه الوضوء، كذا في الخلاصة . (1/14)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: ( لا ) تسن ( بين الفاتحة والسورة مطلقا ) ولو سرية.
قال الإمام ابن عابدين في شرحه: قوله: (لا تسن): مقتضى كلام المتن أن يقال لا يسمي، لكنه عدل عنه لإبهامه الكراهة، بخلاف نفي السنية. ثم إن هذا قولهما وصححه في البدائع. وقال محمد: تسن إن خافت، لا إن جهر، بحر. ونسب ابن الضياء في شرح الغزنوية الأول إلى أبي يوسف فقط فقال: وهذا قول أبي يوسف. وذكر في المصفى: أن الفتوى على قول أبي يوسف: أنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها. وذكر في المحيط: المختار قول محمد، وهو أن يسمي قبل الفاتحة وقبل كل سورة في كل ركعة.
وفي رواية الحسن بن زياد: أنه يسمي في الركعة الأولى لا غير، وإنما اختير قول أبي يوسف؛ لأن لفظة الفتوى آكد وأبلغ من لفظة المختار؛ ولأن قول أبي يوسف وسط وخير الأمور أوسطها، كذا في شرح عمدة المصلي. اهـ. ما في شرح الغزنوية. ووقع في النهر هنا خطأ وخلل في النقل أيضا عن شرح الغزنوية فاجتنبه، فافهم. مطلب قراءة البسملة بين الفاتحة والسورة حسن:
قوله: (ولا تكره اتفاقا): ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة المقروءة سرا أو جهرا، كان حسنا عند أبي حنيفة، ورجحه المحقق ابن الهمام وتلميذه الحلبي؛ لشبهة الاختلاف في كونها آية من كل سورة، بحر.
(الدر المختار مع رد المحتار: 1/490)

قال العلامۃ الطحطاوی رحمہ اللہ تعالی: لا يسمي بين الفاتحة والسورة في قولهما، وفي رواية عن محمد. قال في المضمرات: والفتوى على قولهما. وعن محمد أنها تسن في السرية دون الجهرية؛ لئلا يلزم الإخفاء بين جهرين، وهو شنيع، واختاره في العناية والمحيط. وقال في شرح الضياء: لفظ الفتوى آكد من المختار. وما في الحاشية تبع فيه الكمال وتلميذه ابن أمير الحاج حيث رجحا أن الخلاف في السنية، فلا خلاف أنه لو سمي لكان حسنا لشبهة الخلاف في كونها آية من كل سورة.
(حاشية الطحطاوي: 260-261، علمية)


مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :62733
تاریخ اجراء :2018-03-14