ایک وارث کو میراث سے محروم کرنے کا حکم

سوال کا متن:

1۔ ورثہ میں سے کسی وارث کو کسی سبب سے محروم کرنا مثلا وہ مسجد کا امام ہے اس کو مسجد کی طرف سے مکان ملاہوا ہے ۔
2۔ کسی وارث کو اپناحصہ چھوڑ نے پر مجبور کرنے کا کیا حکم ہے ؟
3۔ ایک وارث اپناحصہ میراث خود چھوڑنا چاہے تو اس کی کیا صورت ہوگی ؟
4۔ایک لڑکی والد کی زندگی میں فوت ہوچکی ہے اس کو میراث میں سے حصہ ملےگا یانہیں ؟
5۔ اگر کسی وارث نے اپناحصہ چھوڑ دیا تو اس کے بعد تقسیم ترکہ کی کیا صورت ہوگی ؟
6۔کل ترکہ بارہ لاکھ پچاس ہزار ہے ۔ /000 ، 50 ، 12 اور ورثہ میں چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں اورایک بیوہ ہیں جن میں سے ایک لڑکی والد کی حیات میں فوت ہوچکی ہیں ۔

جواب کا متن:

1،2 ۔ جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تواس کے مال میں تمام زندہ ورثہ کا شرعی قاعدہ کے مطابق حق ہوتاہے ،لہذاکسی بھی وارث کو میراث سے محروم کرنا یامیراث چھوڑنے پرمجبورکرنابڑا گناہ ہے ،﴿چاہے اس کے پاس گذراوقات کے لئے کوئی ذریعہ معاش ہویا نہ ہو﴾ اس پرحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی وارث کو اس کے حصہ میراث سے محروم کرےگااللہ تعالی قیامت کے دن جنت میں اس کے حصہ سے محروم کردےگا۔
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 197)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه
3۔ اگر کوئی وارث اپنی خوشی سے اپناحق میراث چھوڑنا چاہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر حق میراث نقد رقم کی شکل میں ہے توتقسیم کرکےپہلے اپنا حصہ لے لےپھر یہ حصہ جس وارث کو دینا چاہے دیدے ۔ اور اگر جائداد کی شکل میں ہے تواپنے حصہ کو معمولی قیمت پردیگر ورثہ کے ہاتھ فروخت کردے ،پھران کو قیمت معاف کردے ۔بعد میں تمام ورثہ اس کے حصہ کو بھی آپس میں برابرتقسیم کرلیں ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،
4۔جولڑکی والد کی زندگی میں فوت ہوچکی ہے اس کو والد کی میراث سے حصہ نہیں ملےگا ۔
5۔اگر ورثہ میں سے ایک وارث تخارج ﴿یعنی میراث سے کچھ مال لیکر اپنےبقیہ حصہ میراث کو بقیہ ورثہ کیلئے چھوڑدے﴾کے ذریعہ اپنے حصہ سے دستبردار ہوگیا تو اس کے چھوڑے ہوےحصہ کو مشترکہ میراث میں شامل کرکے میراث کی طرح تقسیم کیا جائے گا ۔
6۔ بوقت انتقال منقولہ غیر منقولہ جائداد نقدی اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان اپنی ملک میں چھوڑا ہے سب مرحوم کاترکہ ہے ، اس میں سب پہلے کفن دفن کا متوسط خرچہ نکالا جائے گا ، اس کے بعد مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو وہ ادا کیاجائے گا ، اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے گا ۔ اس کے بعد مال کو ورثہ میں اس تناسب سے تقسیم کیاجائے گا کہ کل مال کو مساوی آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بیوہ کو ،اسکے بعد بقیہ مال کو مساوی سولہ حصوں میں تقسیم کرکے لڑکوں کو دودو حصے اور لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیاجائے ۔اور اگر کل مال یہی ہے جوسوال میں مذکور ہے ،تو مذکورہ ورثہ میں اس کی تقسیم اسطرح ہوگی ۔
بیوہ کاحصہ = ایک لاکھ چھپن ہزار دوسو پچاس ﴿ 156250﴾
چاروں لڑکیوں میں سے ہرایک کاحصہ = اڑسٹھ ہزار تین سو انسٹھ روپے سینتیس پیسے
﴿ 75 3. 68359﴾
چھ لڑکوں میں سے ہرایک کاحصہ = ایک لاکھ چھتیس ہزار سات سو اٹھارہ روپے پچھتر پیسے
﴿ 5 7. 136718﴾
حوالہ جات
۔
مجيب
احسان اللہ شائق صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :62461
تاریخ اجراء :2018-03-07