میراث کی تقسیم کے وقت جائیدادکی قیمت کااعتبارہوگا

سوال کا متن:

سوال :محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم!
جناب عالی وراثت کی تقسیم سے متعلق ایک مسئلے میں میری شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔
۱۔آج سے 17سال پہلے یعنی 2000 میں وراثت بانٹنے کامعاملہ طے پایا،جو صرف ایک خستہ حال گھر جو80گزپرمحیط تھا،دویاتین لوگوں سے اس گھرکی مالیت معلوم کی گئی،جو290000سے 3لاکھ طے پائی،اوروہ حصہ پرانے حساب سے مانگ رہے ہیں،اورپرانے حساب سے حصہ دینے کے لئے تیار بھی ہیں۔
۲۔وارثین جن میں میراایک بھائی،تین بہنیں،اورمیری والدہ شامل تھیں،اس وقت ایک بھائی کوحصہ 75000 دیدیاگیا،باقی میری والدہ اوردوبہن اپنے حق سے دستبردار ہوگئی تھیں،جبکہ ایک بہن نے یہ کہاکہ جب میرے بھائی کے پاس پیسے آئیں گے تومیں لے لوں گی۔
سوال یہ ہے کہ مجھے آج 2017 میں ایک بہن کاحصہ جواس وقت 37500 بنتاتھا،آج مجھے ان کے حصے کی کتنی رقم دینی پڑے گی؟یعنی آج کل کے حساب سے قیمت لگاکرحصہ دیناپڑے گایاجوپہلے قیمت لگائی گئی تھی وہی دینی پڑے گی۔
نوٹ:مستفتی سے پوچھنے پرمعلوم ہواہے کہ جائیدادکی تقسیم کے وقت والدہ اوربہنوں نے اپناحصہ بغیر قبضہ کئے معاف کردیاتھا،یعنی ان کوان کاحصہ الگ کرکے حوالے نہیں کیاگیا۔

جواب کا متن:

۱،۲۔صورت مسئولہ میں پہلےجائیدادکی تقسیم چونکہ مکمل شرعی طریقے سے نہیں کی گئی،اس لئے کہ اگرورثہ میں سے کوئی اپناحصہ معاف کرناچاہے تواس کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ ہروارث کواس کاحصہ الگ الگ کرکے حوالے کردیاجائے،اس کے بعد اگرکوئی اپنی مرضی سے معاف کرناچاہے تووہ بطورہبہ اپناحصہ بقیہ ورثہ کودیدے،مذکورہ صورت میں اس طرح تقسیم نہیں ہوئی،اس لئے سابقہ تقسیم کالعدم شمارہوگی،اب جب تقسیم ہوگی توجائیدادکی موجودہ قیمت لگائی جائے گی،موجودہ قیمت کے حساب سے جس وارث کے حصے میں جتنی رقم آتی ہےوہ اس کویا اس کی اولادکو حوالے کرنالازم ہوگی،اس کے بعد ان کی اولاد کواختیارہے وہ حصہ لیں،یاہبہ کے طورپرواپس کردیں،جیسے ان کےوالدیاوالدہ کی خواہش تھی کہ ہم اپناحصہ نہیں لیں گے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"14 / 495:
( فصل ) : وأما صفات القسمة فأنواع : منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه ؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء ، ومبادلة البعض ، ومبنى المبادلات على المراضاة ، فإذا وقعت جائرة ؛ لم يوجد التراضي ، ولا إفراز نصيبه بكماله ؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد .
وعلى هذا إذا ظهر الغلط في القسمة المبادلة بالبينة أو بالإقرار تستأنف ؛ لأنه ظهر أنه لم يستوف حقه ، فظهر أن معنى القسمة لم يتحقق بكماله۔
مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :60960
تاریخ اجراء :2017-08-28