کل جائداد کی وصیت کا حکم

سوال کا متن:

جناب مفتی صاحب عرض یہ ہے کہ
صاحب بہادر نامی شخص نے وصیت کی تھی کہ ان کی کل جائداد ، ان کی اور ان کی بیوی کی وفات کے بعد وقف کرکے مسجد بنادی جائے یاحج کرادیاجائے ۔ اب ان دونوں میاں بیوی کی وفات کے بعد صاحب بہادر کے بھتیجے دعوی کر رہے ہیں کہ اس جائداد کے ہم وارث ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ حکم شرعی واضح فرمائیں ،

جواب کا متن:

اگر کوئی شخص کل مال کی وصیت کرجائے اور مرحوم کے انتقال کے بعد شرعی ورثہ اس کی اجازت نہ دیں تو یہ وصیت تہائی مال کی حد تک نافذ ہوگی اس سے زائد میں نہیں ۔
لہذا صورت مسؤلہ میں اگر مرحوم کے بھتیجے وغیرہ شرعی ورثہ موجود ہیں تو تہائی مال کی حد تک اس وصیت پر عمل کیاجائے گا ، اس سےزائدمال ورثہ کا حق ہے ،جو ان میں شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم ہوگا ۔
نوٹ ؛ مرحوم کے تہائی مال سے کسی کو حج کروایاجائے ، اگرپاکستان سے حج کے لئے پیسے پورے نہ ہوں ، تو جس ملک سے ممکن ہووہاں سے حج کروایا جائے ۔ اور اگر مال زیادہ ہو کہ تہائی مال سے حج کروانے کے بعد رقم بچ جائے تو کسی مناسب جگہ مسجد بنوائی جائے ،اگر مکمل مسجد کے لئے رقم کم ہو توحج سے بچی ہوئی رقم کسی مسجد پر لگا دی جائے ۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 513)
قال: "ولا تجوز بما زاد على الثلث" لقول النبي عليه الصلاة والسلام في حديث سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه: "الثلث والثلث كثير" بعد ما نفى وصيته بالكل والنصف، ولأنه حق الورثة، وهذا لأنه انعقد سبب الزوال إليهم وهو استغناؤه عن المال فأوجب تعلق حقهم به، إلا أن الشرع لم يظهره في حق الأجانب بقدر الثلث ليتدارك مصيره على ما بيناه، وأظهره في حق الورثة لأن الظاهر أنه لا يتصدق به عليهم تحرزا عما يتفق من الإيثار على ما نبينه، وقد جاء في الحديث "الحيف في الوصية من أكبر الكبائر" وفسروه بالزيادة على الثلث وبالوصية للوارث.
قال: "إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار" لأن الامتناع لحقهم وهم أسقطوه
قال: "ومن أوصى بوصايا من حقوق الله تعالى قدمت الفرائض منها قدمها الموصي أو أخرها مثل الحج والزكاة والكفارات"
لأن الفريضة أهم من النافلة، والظاهر منه البداءة بما هو الأهم "فإن تساوت في القوة بدئ بما قدمه الموصي إذا ضاق عنها الثلث" لأن الظاهر أنه يبتدئ بالأهم.
وذكر الطحاوي أنه يبتدئ بالزكاة ويقدمها على الحج وهو إحدى الروايتين عن أبي يوسف، وفي رواية عنه أنه يقدم الحج وهو قول محمد. وجه الأولى أنهما وإن استويا في الفريضة فالزكاة تعلق بها حق العباد فكان أولى. وجه الأخرى أن الحج يقام بالمال والنفس والزكاة بالمال قصرا عليه فكان الحج أقوى، ثم تقدم الزكاة والحج على الكفارات لمزيتهما عليها في القوة، إذ قد جاء فيهما من الوعيد ما لم يأت في الكفارات، والكفارة في القتل والظهار واليمين مقدمة على صدقة الفطر لأنه عرف وجوبها دون صدقة الفطر، وصدقة الفطر مقدمة على الأضحية للاتفاق على وجوبها بالقرآن والاختلاف في الأضحية، وعلى هذا القياس يقدم بعض الواجبات على البعض.

مجيب
احسان اللہ شائق صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :60718
تاریخ اجراء :2017-10-01