بھائی اوربہنوں کے درمیان تقسیم میراث۔ بھائیوں کے درمیان مکان کی تقسیم میں جھگڑاہوتواس کی تقسیم کیسےکریں؟

سوال کا متن:

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اورمفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :
میرے والدصاحب آج سے تقریبا13 سال پہلےوفات پاچکے ہیں ،انہوں نے اپنی وراثت میں دومکان چھوڑے ہیں ایک مکان کارنرکاہے ،جبکہ دوسرااسی کے متصل ہے ،ہم کل چاربھائی (اسحاق ،اقبال ،ادریس،الیاس) اور5 بہنیں ہیں ،کارنرکامکان میرے اورچھوٹے بھائی الیاس کے نام پرہے ،والدصاحب کے انتقال کے بعداسحاق نے اپنے حصے کامطالبہ کیا(جواس وقت کے حساب سے 12 لاکھ بنتاتھا،دونوں مکانوں کی قیمت کے اعتبارسے ) تواقبال نے اپنی طرف سے 21 لاکھ کامکان اسحاق کودلایایہ کہہ کرکہ جب گھر کابٹوارہ ہوگاتواسحاق کاحصہ اقبال کودیاجائے گا،والدصاحب کے انتقال کے بعد میں نے کئی باراقبال سے دونوں مکانوں کوبیچنے اورشریعت کے مطابق بٹوارہ پراصرارکیا،لیکن وہ ہربار یہی کہتے رہے کہ ابھی مکانوں کی قیمت کم ہے ،جب (ویلیو)بڑھ جائے گی توبیچ دیں گے ۔پھروالدصاحب کے انتقال کے تقریبا5 سا ل بعدوالدہ صاحبہ کابھی انتقال ہوگیا،والدہ کے انتقال کے بعد بھی میں نے گھرکابٹوارہ کرنے پرزوردیا،لیکن اقبال نہیں مانا،اوراب تقریبا5 مہینے پہلے میری بڑی بہن کاانتقال ہوگیا،(اب 4 بہنیں زندہ ہیں )اب صورت حال یہ ہے کہ ہم تمام بہن بھائی ان دونوں مکانوں کوبیچنے پرمتفق ہیں ،لیکن اقبال کسی صورت گھربیچنے پرآمادہ نہیں ہے اورنہ ہی بہنوں کوحصہ دینے پررضامند ہے ،ہم نے کئی مرتبہ علاقہ کے معززلوگوں کووراثت کی تقسیم کے سلسلے میں اس کے پاس بھیجا،لیکن وہ گھرسے متعلق کوئی بات سننے کے لئے تیارنہیں ہے ،لہذااب ہم نے مجبورہوکریہ فیصلہ کیاہے کہ کارنرکے مکان کوبیچ کروراثت تقسیم کرلی جائے ،اس لئے ہم آپ سے گھرکی تقسیم کے سلسلے میں درج ذیل مسائل کاشرعی حل چاہتے ہیں۔
۱۔ اگرکارنرکے مکان کوبیچ دیاجائے تواس کی تقسیم کس طرح ہوگی ۔مثلااگرگھر2کڑوڑتیس لاکھ میں بکتاہے تواس کوکس طرح تقسیم کیاجائے گا۔؟
۲۔اگرمیں اورچھوٹابھائی الیاس دونوں مل کراس گھرکوتمام بہنوں کی رضامندی سے اوران کوحصہ دے کرخریدناچاہیں توکیایہ جائزہے اورحصوں کی تقسیم کی کیاصورت ہوگی ؟
۳۔ والدہ کے حصے کی تقسیم کیسے ہوگی؟چونکہ والدہ کے انتقال سے پہلے اسحاق کوحصہ دیاگیاتھا،توکیااسحاق کووالدہ کے حصے میں سے کچھ دیاجائے گا؟
۴۔ بڑی بہن جن کاانتقال ہوچکاہے (ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اورنہ شوہرہے )کیاان کاحصہ نکالاجائے گا؟اگرہاں توان کاحصہ کس کواورکیسےدیاجائے گا؟
۵۔ کارنرکے مکان میرے اورچھوٹےبھائی الیاس کے نام پرہے اورشروع سے ہی اپنے والدین کے ساتھ اسی مکان میں رہتے ہیں اوراب بھی بہنوں کے رضامند ی سے اسی گھرمیں مقیم ہیں،جب کہ اقبال شادی کے بعد والدصاحب سے جھگڑاکرکے اس مکان کوچھوڑکے چلے گئے تھے اوراب برابروالے گھرمیں میری بہن رہائش پذیرہیں ،سوال یہ ہے کہ اگرکارنروالے مکان کوبیچ دیاجاتاہے یاہم دوبھائی مل کرخریدلیتے ہیں اوراس کے بعد بھی اقبال بہنوں کوحصہ نہ دے توکیاہمارے برابروالے گھرپرقرضہ رکھناجائزہے ؟
برائے کرم جلد ازجلد ان مسائل کاشرعی حل بتائیں کیونکہ گھرکی فروخت کے سلسلے میں بات جیت چل رہی ہے اورہم نے دوہفتوں کاوقت دے رکھاہے ،ہمیں شدت سے ان جوابات کاانتظاررہے گا۔

جواب کا متن:

بطورتمہیدواضح ہوکہ مسئولہ صورت میں آپ کے والد صاحب نے مال ،جائیداد،نقدی وغیرہ جوکچھ مال واسباب چھوڑاہے وہ سب ان کاترکہ ہے ،والدکی اس میراث میں سے آپ کی والدہ مرحومہ کاآٹھواں حصہ تھا،والدہ کایہ حصہ نکالنے کے بعدوالدصاحب کے بقیہ مال میں مرحوم بہن سمیت آپ سب بھائی بہن اس طرح شریک تھے ،کہ اس میں سے ہربھائی بہن کے مقابلہ میں دوگناحصے کامستحق تھا،چنانچہ اس تفصیل کے مطابق والدصاحب کےچھوڑے ہوئے مکانات وغیرہ میں محمداسحاق کابھی حصہ تھا،تاہم جب اس نے محمد اقبال سے 21لاکھ کامکان لے کراپناحصہ محمداقبال کودے دیاتواس طرح والد کی اس میراث میں محمداسحاق کاحصہ باقی نہیں رہا۔
اسی طرح آپ کی والدہ نے اپنے انتقال کے وقت جوکچھ ملکیت میں چھوڑاہے ،جس میں ان کووالد کی میراث سے ملنے والاآٹھواں حصہ بھی شامل ہے ،وہ سب ان کاترکہ ہے ،یہ مال بھی محمد اسحاق سمیت آپ سب بھائی بہنوں میں اس طرح مشترک ہے کہ اس میں ہربھائی بہن کے مقابلے میں دوگناحصے کامستحق ہے ۔
اسی طرح چونکہ آپ کی مرحوم بہن کی کوئی اولاد،شوہر،اوروالدین وغیرہ کوئی اوروارث نہیں ہے ،اس لئے بوقت انتقال جوکچھ ان کی ملکیت میں تھا،جس میں ان کووالداوروالدہ کی میراث سے ملنے والے حصے بھی شامل ہیں ،وہ سب مال بھی اسی تفصیل سے آپ سب بھائی بہنوں میں مشترک ہے کہ اس میں سے ہربہن کوملنے والے حصے کے مقابلے میں ہربھائی کادوگناحصہ ہے ،موجودہ ورثاء کے شرعی حصوں کی اس تفصیل کی روشنی میں مناسخہ کے طریقے کے مطابق مذکورہ صورت میں تقسیم میراث کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ جتنا بھی مال ہے اس کے 312 حصے کئے جائیں جن میں سےموجودہ ورثہ میں سے ہربہن کو 26حصے ملیں گے ۔ادریس اورالیاس میں سے ہرایک کو52 حصے ملیں گےاوراقبال کو94 حصے ملیں گے اس لئے کہ اس نے اسحاق کو21 لاکھ کامکان دلاکروالد کی میراث میں اس کاحصہ بھی خرید لیاہے ۔اسحاق نے چونکہ والدکی میراث میں اپنا حصہ اقبال کودے کراس سے مکان وصول کرلیاتھا،اس لئے اس کواب صرف والدہ اوربہن کی میراث کے طورپر (10)حصے ملیں گے۔
اسی تقسیم میں 312 کواگر100 فیصد شمارکریں توہربہن کو8٫33 فیصداورادریس اورالیاس میں سے ہرایک کو16٫66فیصداوراقبال کو30٫12 فیصداوراسحاق کوصرف 3٫2051 فیصدحصہ ملے گا۔
واضح رہے کہ تقسیم میراث کے اس شرعی طریقے کے مطابق میراث تقسیم کرنااوربہنوں سمیت ہروارث کواس کاشرعی حصہ دیناشرعاضروری ہے ،آپ کے بھائی یاکسی اوروارث کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ میراث تقسیم کرنے سے انکارکرے ،یاکسی وارث کواس کے حصہ میراث سے محروم کرے ،یہ سراسرظلم اورناانصافی ہے جس پرقرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
مذکورہ تفصیل کومدنظررکھتے ہوئے آپ کے سوالوں کاجواب درج ذیل ہے :
۱۔ صرف کارنروالے مکان کواگرسب ورثہ کی رضامندی سےسوال میں مذکورہ قیمت یعنی 2کروڑتیس لاکھ روپے کے عوض بیچاجائے تواس کی قیمت میں سے والد،والدہ اوربہن کی میراث میں سے ہربہن کو 1916666٫7روپے ملیں گے اور ادریس اورالیاس میں سے ہرایک کو 3833333٫3 روپے ملیں گے ،چونکہ اسحاق نے والدسے اپناحصہ میراث وصول کرلیاہے ،اس لئے مکان کی رقم میں سے اس کوصرف 737179٫49 روپے ملیں گے اوراقبال کو6929487٫2روپے ملیں گے ،کیونکہ اس نے اسحاق کواپنی طرف سے 21 لاکھ کامکان خریدکردیاتھا۔
نوٹ:واضح رہے کہ اس تقسیم میں آپ کے بھائی اقبال بھی آپ کے ساتھ شامل ہوں گے ،اس لئے کہ مذکورہ صورت میں میراث کی شرعی تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی ہے ،کیونکہ بہنوں کوابھی تک حصہ نہیں دیاگیا۔
اوریہ صرف کارنروالے مکان کی تقسیم ہے ،اقبال دوسرے مکان کے بیچنے پرراضی ہوجائے اوراس کی قیمت معلوم ہوجائے تواس کی بھی قیمت لگاکرتمام ورثہ میں بقدرحصص تقسیم کردی جائے گی ۔
۲۔ اگردوسرے ورثہ آپ دوبھائیوں کے مکان خریدنےپر راضی ہوجاتے ہیں ،توجائزہے،اس صورت میں مکان کی طےشدہ قیمت جوآپ اداءکریں گے وہ آپ دونوں سمیت سب ورثہ میں سابقہ تقسیم کے مطابق تقسیم ہوگی ،یہ بھی ہوسکتاہے کہ آپ دونوں اپنے حصے کی رقم اداء نہ کریں ،بقیہ ورثہ کوان کے حصوں کے مطابق اداءکردیں ۔
اوراگرراضی نہ ہوں تومکان کوخریدنا ناجائزہے ،کیونکہ اس میں بہنوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بھائیوں کابھی حصہ ہے ،صرف بہنوں کوراضی کرنے اوران کوحصہ دینے سےآ پ کے لئے مکان خریدنااوراس کواپنے حصے میں حساب کرلینا جائزنہ ہوگا۔
۳۔والدہ کاآٹھواں حصہ ہوگا،جوان کے انتقال کے بعد سب بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگا،بھائی کوبہن سے دوگناملے گا۔
انتقال سے پہلے جوکچھ اسحاق کودیاگیاتھا،وہ والد کی میراث تھی ،اب جب والدہ کاانتقال ہواہے تواس کووالدہ کی میراث سے بھی حصہ ملے گا۔
۴۔ بہن کے انتقال کے بعد اس کاحصہ میراث باقی بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگا،چنانچہ سابقہ تقسیم میں آپ کی بہن کاحصہ بھی تقسیم کردیاگیاہے ۔
۵۔ جب تک دیگرورثہ راضی نہ ہوں آپ اس مکان کونہیں خریدسکتے ،البتہ جووارث راضی ہیں اس مکان میں سے صرف ان کاحصہ آپ خریدسکتے ہیں دوسرے ورثہ یعنی جوباقی بھائی ہیں ،ان کاحصہ بدستور اس مکان میں باقی رہے گا،اگروہ راضی نہ ہوں توآپ انہیں فروخت کرنے پر مجبورنہیں کرسکتے ،البتہ عدالت یاپنچایت کے ذریعہ ان پردباؤڈال کرتقسیم پرتیارکرسکتے ہیں ۔
پوری صورت مسئلہ کاحل: یہ ہے کہ جس طرح اورجتنی جلد ممکن ہو آپ سب سے پہلے اپنے بھائی کودوسرے مکان کے بیچنے پرراضی کرنے کی کوشش کریں اگروہ راضی ہوجاتاہے تودونوں مکانوں کی قیمت لگاکرتمام ورثہ میں تقسیم کردیں اوراگروہ راضی نہیں ہوتا،توآپ صرف بہنوں کاحصہ ان کی جازت سے خریدسکتے ہیں ،البتہ بھائیوں کوان کا حصہ فروخت کرنے پرمجبور نہیں کرسکتے ،تاہم آپ کوشرعایہ حق ہے کہ آپ عدالت یاپنچایت کے ذریعے میراث کی جبری تقسیم کرواکراپناحصہ الگ کرلیں۔
نیزاگرعدالت اورپنچایت کے ذریعے فیصلہ مشکل ہوتواس طرح بھی کیاجاسکتاہے کہ دوسرے ورثہ کونقدی یادوسری جائیدادمیں پوراحصہ دے دیاجائے توجوبھائی کارنرکے مکان میں رہ رہے ہیں اگراس مکان کی مالیت ان کے میراث کے حصے کے بقدرہے تووہ رہ سکتے ہیں اوراگراس مکان کی مالیت زیادہ ہے توقیمت لگواکرزائدحصہ کی قیمت دوسرے ورثہ کوان کے حصے کے بقدردے سکتے ہیں ،جوبھائی راضی نہیں اس کاحصہ محفوظ رکھیں ،جب وہ پوری میراث تقسیم کرنے پرراضی ہوجائے توپھراس کاحصہ دے دیں۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء آیت11 :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ الخ۔
وفی الآیۃ 12 :
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ الخ۔
وفی الآیۃ 14:
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)۔
" تفسير ابن كثير " 2 / 232:
أي: هذه الفرائض والمقادير التي جعلها الله للورثة بحسب قربهم من الميت واحتياجهم إليه وفقدهم له عند عدمه، هي حدود الله فلا تعتدوها ولا تجاوزوها؛ ولهذا قال: { ومن يطع الله ورسوله } أي: فيها، فلم يزد بعض الورثة ولم ينقص بعضا بحيلة ووسيلة، بل تركهم على حكم الله وفريضته وقسمته { يدخله جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها وذلك الفوز العظيم ومن يعص الله ورسوله ويتعد حدوده يدخله نارا خالدا فيها وله عذاب مهين } أي، لكونه غيَّر ما حكم الله به وضاد الله في حكمه. وهذا إنما يصدر عن عدم الرضا بما قسم الله وحكم به، ولهذا يجازيه بالإهانة في العذاب الأليم المقيم۔
" صحيح البخاري "3 / 130:
حدثنا أبو معمر حدثنا عبد الوارث حدثنا حسين عن يحيى بن أبي كثير قال حدثني محمد بن إبراهيم أن أبا سلمة حدثه أنه كانت بينه وبين أناس خصومة فذكر لعائشة رضي الله عنها فقالت يا أبا سلمة اجتنب الأرض فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين۔

مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
مفتی محمّد صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :54573
تاریخ اجراء :2015-10-27