دکان کی آمدنی اور قرض پر زکاۃ

سوال کا متن:

میں دکاندار ہوں،میں نے سال کے آخر میں دکان کاحساب لگایا تو میں نے پورے سال میں دولاکھ بیس ہزار روپے کمائے ہیں،اور دو لاکھ روپے دوسرے پر قرض بھی ہیں،تو کیا ان پیسوں میں مجھ پر زکاۃ فرض ہےیا نہیں؟اگر ہے تو کتنا ہے؟

جواب کا متن:

دکان یا کاروبار کی زکاۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جتنا بھی قابلِ فروخت اور مالِ تجارت ہے،سب کی قیمت لگاکر نقدی اور قابل وصول قرضے اس میں شامل کرلیے جائیں ،پھر اس مجموعے سے وہ قرضے جو آپ نے لوگوں کو دینےہیں ،منہا کرلیے جائیں،باقی رقم کی ڈھائی فیصد زکاۃ دینی ہوگی۔یہ سمجھنا کہ زکاۃکل مال پر نہیں،بلکہ صرف منافع پر ہوتی ہے،درست نہیں۔
حوالہ جات
عن علي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :…… فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهما درهما………. (سنن الترمذي:3/ 16)
اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة : قوي ، ومتوسط ، وضعيف ؛ ( فتجب ) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول ، لكن لا فورا بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كقرض ،( وبدل مال تجارة ) فكلما قبض أربعين درهما ،يلزمه درهم و عند قبض ( مائتين منه لغيرها ) أي من بدل مال لغير تجارة، وهو المتوسط كثمن سائمة ،وعبيد خدمة ،ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية ،كطعام ،وشراب ،وأملاك . )رد المحتار :7/ 97(
وذكر في المنتقى : رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين ، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة ،وللثانية، والثالثة أربعة أربعة من مائة، وستين ، ولا شيء عليه في الفضل ؛ لأنه دون الأربعين . (رد المحتار:7/ 99(
مجيب
ریاض احمد صاحب
مفتیان
مفتی فیصل احمد صاحب
مفتی سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56888
تاریخ اجراء :2017-02-04