سودی رقم سے ہونے والے نفع کاحکم

سوال کا متن:

میں نے ایک دوست سے پیمنٹ مانگی تقریبا ساٹھ لاکھ ، اس نے کہا کہ میرے پاس تو نہیں ، البتہ میرے ایک جاننے والے کے پاس ایک گاڑی ہے جس کی قیمت ایک کروڑ تین لاکھ ہے ، اس سے لے کر مارکیٹ میں بیچ دیں گے ، پھر بقول ان کے وہ گاڑی پچاس لاکھ کی بک گئی ، مجھے انہوں نے پچاس لاکھ وہ اور دس لاکھ کسی اور سے لے کر دے دیے۔لیکن مجھے کہا کہ آپ نے ایک کروڑ تین لاکھ ہی ادا کرنے ہیں۔ وہ دو آدمی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسی طرح کیا ہے۔ میں نے ان کو بیس دن بعد پوری رقم ایک کروڑ تین لاکھ ادا کردیے ، اب اس رقم سے جو پلاٹ میں نے خریدا تھا اس میں مجھے تیس لاکھ کا منافع بھی ہوگیا۔ اب یہ منافع والی رقم میرے لیے سود کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں اور میں ان کو اپنی ضرورت میں لگا سکتا ہوں یا نہیں؟
تنقیح : ساٹھ لاکھ قرض لیے گئے ہیں اور ایک کروڑتین لاکھ واپس کرنے کی شرط لگائی گئی ہے۔ان کے ساتھی اور گاڑی لینے والے کا الگ معاملہ ہے ، اس کا اس کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔

جواب کا متن:

ساٹھ لاکھ قرض لے کر ایک کروڑ تین لاکھ واپس کرنے کی شرط لگانا اور ادا کرنا سودی لین دین تھا، جو کہ حرام ہے۔ البتہ جو قرض لیا گیا تھا اس سے خریدی گئی زمین پر جو نفع آیا وہ سود کے زمرے میں نہیں آتا۔لیکن آپ نے ۴۳ لاکھ سود ادا کیا ، یہ گناہ عظیم تھا ۔اس پر توبہ استغفار کریں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کریں کہ سود کھانا اور کھلانا دونوں سخت ترین گناہ ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی : وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال. ( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :7/ 396)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی : (ويملك) المستقرض (القرض بنفس القبض عندهما) …...القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط .(الدر المختار:5/ 164)

مجيب
عتیق الرحمن صاحب
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی فیصل احمد صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :57238
تاریخ اجراء :2017-03-05