تنخواہ سے کاٹی جانے والی رقم (جی پی فنڈ)پر لگنے والے اضافے کا حکم

سوال کا متن:

میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور ہر ماہ میری تنخواہ میں سے کچھ رقم کی کٹوتی ہوتی ہے، جو کہ آخر میں میری ریٹائرمنٹ میں مجھے ملے گی۔ اس جمع شدہ رقم پر ہر سال حکومت کی طرف سے کچھ شرح اضافہ لگایا جاتا ہے۔ مثلا اگر میری تنخواہ سے ہر ماہ 10000 دس ہزار کاٹے جاتے ہیں تو ایک سال میں یہ رقم 120000 بن جاتی ہے۔ اس پر حکومت کی طرف سے 13 فیصد شرح یعنی 15600 کا اضافہ لگایا جاتا ہے۔ یہ اضافہ اصل رقم میں جمع کرنے سے کل رقم135600 بن جاتی ہے۔ پھر ہر سال اس رقم کے ساتھ 120000 کا اضافہ ہوتا ہے جو ہر ماہ 10000 تنخواہ میں سے کاٹا جاتا ہے۔ پھر یہ گزشتہ سال والی رقم میں شامل ہو جاتا ہے۔
مثلا گزشتہ سال 135600 تھا، تو اگلے سال 120000 جمع کرنے سے کل  255600 ہو جائے گا۔ اب اس مجموعی رقم پر اسی رقم کے اعتبار سے 13 فیصد شرح لگائی جائے گی جو  33228 ہوگی۔ اب کل رقم 288828 بن جائے گی۔  اسی طرح ہر سال کے اضافہ کو گزشتہ سال کی مجموعی رقم میں شامل کر کے کل رقم پر 13 فیصد شرح لگائی جاتی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ہم کاروبار کرتے ہیں یہ اس کا نفع ہے۔ اور یہ اضافہ لینے یا نہ لینے کا اختیار ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ میرے لیے یہ اصل رقم اور یہ اضافہ لینے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اضافہ ناجائز ہے اور لے لیا ہے تو اس رقم کا کیا کیا جائے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرما کر ممنون ہوں۔

جواب کا متن:

سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے جو رقم ہر مہینہ کاٹی جاتی ہے،اور اس پر محکمہ سال کے بعد یا ملازمت ختم ہونے کے بعد جواضافی رقم دیتا ہے وہ سود نہیں ہے۔بلکہ ملازمین کی تنخواہ ہو کا حصہ ہے۔اس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔البتہ اپنے اختیار سے اگر رقم کٹوائی جائے تو اس پر جو اضافی رقم حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے،گو وہ سود نہیں،لیکن پھر بھی اس سے اجتناب بہتر ہے۔
مذکورہ بالا حکم اس صورت میں ہے جب کٹوتی والی رقم اس ملازم کی تحویل میں نہ آئی ہو،اگر یہ رقم ملازم کی تحویل میں آکر پھر کسی شخص یا ادارے وغیرہ کو سوی عقد کے تحت دلوادی ہو تو یہ اضافی رقم سود شمار ہو گی،اوراس کا لیناحرام اور ناجائز ہوگا۔اپنی تحویل میں رقم لانے کی ایک صورت یہ بھی ہےکہ آج کل پرائیویٹ اداروں کو چلانے کے لیے ملازمین ہی کے نمائندوں پر مشتمل ایک جماعت تشکیل دی جاتی ہے۔اگر ایسی صورت ہو تو اختیاری کٹوتی کی صورت میں ان نمائندوں کا کٹوتی کی رقم وصول کرنا ایسا ہوگا جیسے خود ملازم کا وصول کرنا،اس صورت میں اس رقم پر ملنے والا اضافہ سود شمار ہوگا۔
حوالہ جات
(تبویب،رجسٹر:166،ص:15،فتوی نمبر:50630)
مجيب
محمد تنویر الطاف صاحب
مفتیان
مفتی فیصل احمد صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56592
تاریخ اجراء :2017-10-01