بیوی کوڈرانے کی غرض سےطلاق کے جھوٹے اقرار کا حکم

سوال کا متن:

ایک شخص نے اپنی بیوی کو اپنے والدین کے گھر جانے سےمنع کیا اور کہا کہ اگرتم اپنے والدین کے گھر گئیں تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔عورت اس کے باوجود باز نہ آئی اور اپنے والدین کے گھر جاتی رہی۔آخر ایک دن شوہر نے بیوی کو صرف ڈرانے کے لیے کہا کہ "کچھ دن پہلےمیں تمہیں طلاق دے چکا ہوں" حالانکہ اس نے در حقیقت طلاق نہیں دی تھی،صرف بیوی کو ڈرانے کے لیے یہ جملہ کہا۔
پوچھنا یہ ہے کہ"کچھ دن پہلےمیں تمہیں طلاق دے چکا ہوں" کہنے سے طلاق واقع ہو گئی؟ جبکہ اس شخص نے یہ جملہ صرف بیوی کو ڈرانے کے لیے کہا تھا،حقیقت میں طلاق نہیں دی تھی۔

جواب کا متن:

اگر اس شخص نے واقعی طلاق نہیں دی تھی بلکہ صرف ڈرانا مقصد تھا تو دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوئی۔لیکن اگر معاملہ قاضی کے پاس چلا گیا تو ایک طلاق رجعی واقع ہونے کا فیصلہ دیا جائے گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ: وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا، فقال في البحر: وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به، عدمه ديانة. ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا، لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك، لا يقع قضاء أيضا.(ردالمحتار:3/238)
قال الطحطاوی رحمہ اللہ:الإقرار بالطلاق کاذبا، یقع بہ قضاءً لا دیانۃً.(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار:2/113)
قال العلامۃ عالم بن العلاءالأنصاری رحمہ اللہ:فی أمالی أبی یوسف رحمہ اللہ:إذا قال لہا: قد طلقتک،أو قال لہا:أنت طالق،و أراد الخبر عما مضی کذبا،وسعہ فیما بینہ و بین اللہ تعالی أن یمسکہا.(الفتاوی التاتارخانیۃ:3/261)
مجيب
محمد تنویر الطاف صاحب
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56334
تاریخ اجراء :2016-11-15