اسلامی لباس کی شرائط

سوال کا متن:

1. اسلامی لباس کس کو کہتے ہیں؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟
2. کیا شلوارقمیص اسلامی لباس کے طور پر متعین ہے؟اگر نہیں تو علماء ِ کرام اس مخصوص ہیئت پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ میرا بچہ ایک اسکول(THE PRESTIGE ACADEMY)میں جاتا ہے جوکہ اسلامک ہے،یعنی میوزک ،جاندارکی تصویر وغیرہ سے مکمل اجتناب کرتے ہیں،لیکن لباس انہوں نے پینٹ شرٹ ہی رکھا ہوا ہے،والدین نے توجہ دلائی تو وہ کہہ رہی ہیں کہ
3. اگر میں ڈھیلی ڈھالی شرٹ جو کہ نصف رانوں تک ہو اور ڈھیلی ڈھالی ٹراؤزر رکھ لو تو اس میں کوئی حرج ہے؟آپ حضرات وضاحت فرمادیں کہ کیا یہ لباس اسکول کے لیے اسلامی لبا س ہوگا؟کیوں کہ گھٹنوں تک آتی قمیص میں بچوں کے لیے بھاگ دوڑ ،exercise and sportsمشکل ہوجاتی ہیں۔
4. نیز کیا یہ ترکوں کا نکالا ہوا لباس ہے؟

جواب کا متن:

1. قرآن وحدیث کی رو سے اسلامی لباس کی کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں، بلکہ چند اصول بیان کیے گئے ہیں جن کی رعایت کرتے ہوئے کوئی بھی لباس اختیار کیا جائے تو وہ اسلامی لباس ہوگا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں : اسلامی لباس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بالکل ویسا لباس ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا تھا، بلکہ جس کی آپ ﷺ نے اجازت دی ہو وہ بھی آپﷺ کا طرز ہے ۔( تسہیل المواعظ: 131)
اسلامی لباس کی چند اہم شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1) لباس اتنا باریک یا چست نہ ہوکہ جسم جھلکے ۔
2) لباس میں کافروں یا فاسقوں کی نقالی اور تشبہ نہ ہو۔
3) ایسے لباس سے اجتناب کیا جائے جس سے تکبر اور اسراف کا اظہار ہوتا ہو۔
4) شلوار ،تہبنداور پائجامہ وغیرہ اتنا نیچے نہ ہو کہ ٹخنے یا ٹخنے کا کچھ حصہ چھپ جائے۔
5) مردوں کے لیے اصلی ریشم پہننا حرام ہے۔
6) مرد زنانہ لباس نہ پہنے اور عورتیں مردانہ لباس نہ پہنیں۔
2. قمیص اور شلوار اسلامی لباس کے طور پر متعین تو نہیں، لیکن آپ ﷺکا قمیص پہننا اور شلوار خریدنا احادیثِ مبارکہ سےثابت ہے نیز یہ ہمیشہ صلحاء کا لباس رہا ہے،، لہذاا س نیت سے شلوار قمیص پہنناباعثِ اجر و ثواب ہے ، علماءِکرام بھی اسی لیے اس لباس کی ترغیب د یتے ہیں۔
3. یہ عذر ٹھیک نہیں کہ شلوار قمیص میں بھاگنا دوڑنا مشکل ہوتا ہے،بلکہ شلوار قمیص میں اٹھنا بیٹھنا اور بھی آسان ہوتا ہے ،پینٹ والے کے لیے تو نیچےبیٹھنا ہی بھاری ہوتا ہے،لہذااس کو بہانا بنانا ٹھیک نہیں ،تاہم ایسی ڈھیلی ڈھالی ٹراؤزر جس سے مخصوص اعضاء کی شکل ظاہر نہ ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ شلوار قمیص کو ہی استعمال کیا جائے ۔
4. پینٹ شرٹ ترکوں کا ایجاد کردہ لباس نہیں۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی ابتداء آج سے 3000سال پہلےHorse,Ridersنے کی اوربعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کی ابتداء انیسویں صدی میں Beau,Bmmel نے کی،لیکن آج کل بہت سے مسلم ممالک کے مسلمانوں میں بھی پہننے کا رواج ہوگیا ہے،لیکن علماء صلحاء کا لباس یہ نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابو داؤد رحمہ اللہ:عن ابن عمر ، قال في حديث شريك : يرفعه ، قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من لبس ثوب شهرة ألبسه الله يوم القيامة ثوبا مثله.
( سنن أبي داود:4/16)
قال العلامۃ الترمذی رحمہ اللہ: عن إبن عمر، قال: سمعت عمر يذكر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال: من لبس الحرير في الدنيا ،لم يلبسه في الآخرة. (سنن الترمذي: 5/ 122 )
قال الشیخ مفتی محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ:اللباس یجب أن یکون ساترا لعور ۃ الإنسان...فسترالعورۃ من أھم ما یقصد با للباس...وأن ٓ اللباس الذی یخل بھذالمقصدیعمل ماخلق الإنسان لأجلہ،فیحرم علی الإنسان استعمالہ،فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃالرجل أو المرءۃ،لا تقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ مھما کان جمیلا،أو موافقا لدور الأزیاء،وکذلک اللباس الرقیق, أواللاصق بالجسم الذی یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذی یجب سترہ،فھو فی حکم ما سبق فی الحرمۃ وعدم الجواز. (تکملۃ فتح الملھم: 4/88)
قال العلامۃ أبو داؤد رحمہ اللہ :عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ،قَالَتْ: كَانَ أَحَبَّ الثِّيَاب إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْقَمِيصُ. (سنن أبي داود للسجستاني:4/ 76)
قال العلامۃ إبن حبان رحمہ اللہ :عن سويد بن قيس قال :جلبت أنا ومخرفة العبدي بزا من هجر فأتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فساومناسراويل وعنده وزان يزن بالأجر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: زن فأرجح . (صحيح ابن حبان:15/ 490)
قال محمد الجوزية :واشترى سراويل والظاهر أنه إنما اشتراها ليلبَسها... وكان أحبَّ الثياب إليه القميصُ والحِبَرَةُ . (زاد المعاد في هدي خير العباد :1/ 139)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله :(لا يصف ما تحته): بأن لا يرى منه لون البشرة احترازا عن الرقيق ،ونحو الزجاج، (قوله :(ولا يضر التصاقه) أي بالألية مثلا، وقوله :(وتشكله): من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة ،إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فینبغی أن لا یمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر.
مجيب
ریاض احمد صاحب
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56180
تاریخ اجراء :2017-11-01