وراثت میں مشترک مکان کی تقسیم کا مسئلہ

سوال کا متن:

بندہ کے والد صاحب جب ریٹائر ہوئے توانہیں ایک لاکھ روپے ملے، آج سے تقریبا 25 سال پہلے، بندہ چونکہ بڑا بھائی تھا ، اس لیے بندہ نے یہ کیا کہ اس ایک لاکھ روپے میں سوا دو لاکھ روپے میں مزید ملا کر سوا تین لاکھ روپے میں ایک پلاٹ خریدا ، جب پلاٹ کو لیز کرنے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ اتنابڑا پلاٹ اگر لیز کروایا جائے اور نام پر کروایا جائے تو خرچہ زیادہ آئےگا۔ اس لیے بندہ نے آدھا پلاٹ اپنے نام پر کروایا اور آدھا والد صاحب کے نام پر کروایا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ جب والد صاحب کی میراث تقسیم ہوگی توصرف وہ حصہ تقسیم ہوگا جو ایک لاکھ روپے کے بدلہ میں آیا ہے یا پھر آدھا پلاٹ جو ان کے نام پر ہے ؟
تنقیح : پلاٹ خرچہ سے بچنے کے لیے صرف نام پر کرایا گیا ہے ، اور سوا دو لاکھ کی رقم اپنی ملکیت کی ہی نیت سے لگائی گئی ہے۔
مسئلہ نمبر 2- اس کے بعد جب اس پلاٹ کو بنانے کا وقت آیا تو سب سے پہلی منزل میں بندہ نے ایک لاکھ روپے اور تیسرے نمبر والے بھائی نے بقیہ رقم ملا کر ایک منزل تیار کی اور نیت یہ کی کہ یہ منزل سب سے چھوٹے بھائی کی ہوگی۔ بعد میں ہم تین بھائی اپنی اپنی منزل الگ سے اوپر بنائیں گے، اس وقت نچلی منزل چھوٹے بھائی کے پاس ہے ، اور ہم تینوں بھائیوں نے اپنے لیے الگ الگ تین منزلیں اوپر بنائی ہوئی ہیں۔ چونکہ آدھا پلاٹ میرے نام ہے اور آدھا والد صاحب کے نام پر ، اور چاروں بھائیوں کے اس کے اوپر گھر بنے ہوئے ہیں ، تواس کی تقسیم کی کیا صورت ہوگی ؟
تنقیح : زمینی منزل چھوٹے بھائی کو ہدیہ کے طور پر دی گئی ہے۔اور والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے جبکہ ورثہ میں مذکورہ چار بیٹیے، ایک بیٹی اور والدہ ہیں۔

جواب کا متن:

1- اگر واقعۃ پلاٹ آپ نے خرچہ سے بچنے کے لیےوالد صاحب کے نام پر کرایا، ان کو ہدیہ نہیں کیاتھا تو میراث تقسیم کرتے وقت صرف وہ حصہ تقسیم ہوگا جو اس وقت ایک لاکھ روپے کے بدلہ میں آیا تھا۔
2- پلاٹ کے اوپر جو چار منزلیں ہیں ، ہر منزل اسی بھائی کی ملکیت ہے جو اس میں رہ رہا ہے۔ اورپلاٹ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اسی علاقے میں اس طرح کے خالی پلاٹ کی قیمت لگائی جائے، اس میں آپ کے پلاٹ کی جو قیمت ہوگی وہ آپ کی ملکیت ہے اور والد صاحب کے پلاٹ کی جو قیمت ہوگی وہ میراث شمار ہوگی ۔ اس میں سے تجہیزوتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں(مہر بھی اس میں شامل ہے) تو وہ ادا کیا جائے، پھر اگر انہوں نے کوئی وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیاجائے، پھر جو ترکہ بچ جائے اس میں سے فیصد کے اعتبار سے والدہ کا حصہ12.5 فیصد ، ہر ہر بھائی کا حصہ 19.444444فیصد اور بہن کا حصہ 9.72 فیصدہوگا۔

میـتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زوجہ بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی
1 14 14 14 14 7
9 19.4444 19.4444 19.4444 19.4444 9.72
حوالہ جات
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ(النساء : 11)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ(النساء : 12)
(الدر المختار مع رد المحتار:6/ 759)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ،(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا، ثم) تقدم (وصيته) (من ثلث ما بقي) ،(ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته). قوله :(يقسم الباقي) لم يقل: يقدم ،كما قال في سابقه؛ لأنه آخر الحقوق فلم يبق ما يقدم عليه.

مجيب
عتیق الرحمن صاحب
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی فیصل احمد صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :57205
تاریخ اجراء :2017-02-28