والدین کی رضامندی کے بغیر غیرِ کفو میں نکاح کرنا

سوال کا متن:

ایک لڑکی نے گھر والوں سے چھپ کرایک لڑکےسے نکاح کیا مگر وہ لڑکا نہ کوئی کام کاج کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی ہنر یا تعلیم رکھتا ہے ،کردار کا بہت برا ہے،اور خاندان بھی کوئی اونچا نہیں ہے،دوسری طرف لڑکی پڑھی لکھی اور معزز خاندان کی ہے،لڑکی کے والدین اس نکاح سے سخت ناراض ہیں کسی صورت ماننے کو تیار نہیں مگر لڑکی بضد ہے کہ اس نے نکاح کرلیا ہےاور قانون عاقلہ بالغہ لڑکی کو نکاح کا حق دیتا ہے ،اب اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ،نکاح ہوایا نہیں؟

جواب کا متن:

مشاہدہ یہ ہے کہ جو نکاح والدین کی رضامندی کے بغیر کیا جائے،تو وہ کامیاب نہیں ہوتابلکہ اکثر و بیشز چند ماہ بعدجدائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے،لہذا والدین کے مشورے اور سرپرستی سے نکاح کرنا چاہیے،اس میں والدین کی عزت بھی ہے اور اس سے اللہ تعالی کی ناراضگی سے بچا جاسکتا ہے۔
آپ کے سوال سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی کہ یہ نکاح ہم پلہ برادری میں ہے یا نہیں؟اگر لڑکی نے غیر کفو(غیر ہم پلہ خاندان) میں نکاح کیا ) یعنی ایسے لڑکے کے ساتھ جو نفقہ دینے پر قادر نہیں یا پیشہ اچھا نہیں یا فاسق ہےیا نسب میں لڑکی کا ہمسر نہیں)تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ،بغیر طلاق کے جدائی اختیارکرلی جائےاور اگر کفو میں نکاح کیا تو یہ نکاح ہوجائے گا۔لہذا اس صورت میں لڑکی کے والدین کو صلح واصلاح کا کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔
حوالہ جات
(بدائع الصنائع:2/318)
قال العلامة الحصکفی رحمه الله:(ويفتى) في غير الكفء (بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان).
(الدرالمختارمع ردالمحتار3/57ص)
قال ابوالحسن المرغينانی حمہ اللہ: الكفاءة في النكاح معتبرة،قال صلی اللہ علیہ :ألا ،لا يزوج النساء ،إلا الأولياء ولا يزوجن إلا من الأكفاء؛ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس ،فلا بد من اعتبارها ،بخلاف جانبها ؛لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش ، وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما ؛دفعا لضرر العار عن أنفسهم لفساد الزمان
(الہدایۃ:2/31)
قال العلامۃ إبن عابدین رحمہ اللہ: فالعالم العجمي يكون كفؤا للجاهل العربي والعلوية ،لأن شرف العلم فوق شرف النسب ،وارتضاه في فتح القدير وجزم به البزازي وزاد :والعالم الفقير يكون كفؤا للغني الجاهل والوجه فيه ظاهر لأن شرف العلم فوق شرف النسب فشرف المال أولى . )رد المحتار 9/ 462 (
واللہ سبحانہ و تعالی أعلم
ریاض احمد
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
24صفر المظفر‏1438ھ قال العلامۃ علاء الدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالٰی:حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلك ألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن. (بدائع الصنائع:2/318)
قال العلامة الحصکفی رحمه الله:(ويفتى) في غير الكفء (بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان).
(الدرالمختارمع ردالمحتار3/57ص)
قال ابوالحسن المرغينانی حمہ اللہ: الكفاءة في النكاح معتبرة،قال صلی اللہ علیہ :ألا ،لا يزوج النساء ،إلا الأولياء ولا يزوجن إلا من الأكفاء؛ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس ،فلا بد من اعتبارها ،بخلاف جانبها ؛لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش ، وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما ؛دفعا لضرر العار عن أنفسهم لفساد الزمان
(الہدایۃ:2/31)
قال العلامۃ إبن عابدین رحمہ اللہ: فالعالم العجمي يكون كفؤا للجاهل العربي والعلوية ،لأن شرف العلم فوق شرف النسب ،وارتضاه في فتح القدير وجزم به البزازي وزاد :والعالم الفقير يكون كفؤا للغني الجاهل والوجه فيه ظاهر لأن شرف العلم فوق شرف النسب فشرف المال أولى . )رد المحتار 9/ 462 (
مجيب
ریاض احمد صاحب
مفتیان
مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56370
تاریخ اجراء :2016-11-25