سوال کا متن:
کچھ دن پہلےمیری منگنی ایک لڑکی کے ساتھ ہوئی،دونوں خاندان اس پر راضی ہیں۔شادی کی تاریخ آٹھ ماہ بعد کی طے ہوئی، اس لڑکی سےمیری ملاقات ہوتی رہتی ہے ،ملاقات پر گھر والوں کو اعتراض نہیں۔لیکن میری خواہش ہے کہ جلد از جلد صرف نکاح ہو جائے تاکہ منگیتر سے ملنے میں گناہ نہ ہو،بہت کوشش کی مگر گھر والوں کا اصرار ہے کہ نکاح آٹھ ماہ بعد مقرر وقت پر ہی ہو گا۔
پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم گھر والوں کو بتائے بغیر ابھی خفیہ طور پر نکاح کر لیں،اور بعد میں مقررہ تاریخ پر دوبارہ نکاح کر لیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟
پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم گھر والوں کو بتائے بغیر ابھی خفیہ طور پر نکاح کر لیں،اور بعد میں مقررہ تاریخ پر دوبارہ نکاح کر لیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟
جواب کا متن:
آپ کے لیے فی الحال منگیتر سے ملاقات کرنا جائز نہیں ہے،اس سے اجتناب ضروری ہے۔نیزگھر والوں کو بتائے بغیر خفیہ طور پر نکاح کرنا بھی شریف لوگوں کا کام نہیں ہے،نہایت نامناسب حرکت ہے۔ آپ گھر والوں کو جلد نکاح پر رضا مند کریں۔اگر وہ رضا مند نہ ہوں تو اپنی منگیتر سے ملاقات کرنے سے سخت اجتناب کریں۔
حوالہ جاتروی الإمام مسلم رحمہ اللہ عن عائشة رضی اللہ عنہاقالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أعلنوا هذا النكاح ،واجعلوه في السماجد،واضربوا عليه بالدفوف.(سنن الترمذي 2/ 276)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:النکاح ینعقد بإیجاب من أحدھما و قبول من الآخر .(الدر المختارمع ردالمحتار:3/9) ( کذا فی الھدایۃ :2/306،و البحر الرائق:3/144)
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ:قوله:( وفي الكافي):حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين .ظاهر المنصوص في الأصل: أنه يلزم الألفان ،ويكون زيادة في المهر. وعند أبي يوسف: المهر هو الأول؛ لأن العقد الثاني لغو، فيلغو ما فيه. وعند الإمام: أن الثاني ،وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة. (رد المحتار:3/112)
مجيبمحمد تنویر الطاف صاحب
مفتیانمفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب
حوالہ جاتروی الإمام مسلم رحمہ اللہ عن عائشة رضی اللہ عنہاقالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أعلنوا هذا النكاح ،واجعلوه في السماجد،واضربوا عليه بالدفوف.(سنن الترمذي 2/ 276)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:النکاح ینعقد بإیجاب من أحدھما و قبول من الآخر .(الدر المختارمع ردالمحتار:3/9) ( کذا فی الھدایۃ :2/306،و البحر الرائق:3/144)
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ:قوله:( وفي الكافي):حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين .ظاهر المنصوص في الأصل: أنه يلزم الألفان ،ويكون زيادة في المهر. وعند أبي يوسف: المهر هو الأول؛ لأن العقد الثاني لغو، فيلغو ما فيه. وعند الإمام: أن الثاني ،وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة. (رد المحتار:3/112)
مجيبمحمد تنویر الطاف صاحب
مفتیانمفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
مفتی شہبازعلی صاحب