ناجائزآمدنی سےجائیدادوغیرہ خریدنےکاحکم

سوال کا متن:

ہمارا کاروبار کچھ اس طرح ہے کہ باہر ممالک سے جو لوگ آتے ہیں تو حکومت کی اجازت سے ان لوگوں کے پاسپورٹ پر گاڑیاں منگوائی جاسکتی ہے، ہم باہر ممالک سے آنے والے لوگوں سے مخصوص مدت تک پاسپورٹ لیتے ہیں اور ان کو کچھ رقم دےدیتے ہیں ،اس کے بعد ہم یہ پاسپورٹ زیادہ رقم کے ساتھ شوورم والوں کودیتے ہیں، ،پھر شوروم والے اس پاسپورٹ پر باہر سے گاڑی منگوالیتے ہیں، اس کے بعد پاسپورٹ ہمارے حوالے کر دیتے ہیں،اور ہم اس پاسپورٹ کو صاحب پاسپورٹ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
مذکورہ کاروبار کےبارے میں آپ کے دارالافتاء اور دیگردارالافتاؤں سے رجوع کیا گیا،جس میں اس کےبارےمیں عدمِ جواز کا حکم صادر فرمایاہے۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ چونکہ ہمارا یہ کاروبار کافی عرصہ سے چل رہاتھا اور ہم اس کوجائز سمجھ رہےتھے تو ہم نے اس سے کافی جائیداد وغیرہ بنائی ہے،اب حاصل شدہ مال کے بارے میں کیا حکم ہے؟
نوٹ:
یادرہےکہ مذکورہ کاروبار ہم حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں اوراس کاباقاعدہ لائسنس حکومت نے جاری کی ہےاور ہم سالانہ اس کا ٹیکس اداکرتے ہیں۔
مذکورہ کاروبار کے بارے میں باقی تفصیلات جاننے کے لیےاستفتاء کے ساتھ منسلکہ دستاویزات کا مطالعہ فرمائیں۔

جواب کا متن:

چونکہ منسلکہ دستاویزات میں باہرسےگاڑی منگوانےکےطریقہ کارمیں یہ بات مذکورہےکہ صرف ذاتی ضرورت یارہائش کی منتقلی پر یاکسی کو ہدیہ کرنےکےلیےاپنےپاسپورٹ پرگاڑی منگوائی جاسکتی ہے،لہذاسابقہ فتویٰ میں مذکوروجہ سےکاروبارکی یہ صورت جائزنہیں،ایسے ناجائز کاروبار سے حاصل ہونےوالی رقم کاحکم یہ ہےکہ اصل مالک کولوٹائی جائے،اگراصل مالک معلوم نہ ہوتواس سےچٹکاراحاصل کرنےکےلیےاصل مالک کےلیےثواب کی نیت سےصدقہ کی جائے،اگرایسی رقم جائیدادوغیرہ خریدنے پرخرچ کی جاچکی ہےتب بھی اس کےبقدررقم کاصدقہ کرناواجب ہے،اس کےبقدر رقم صدقہ کیےبغیراس کےلیےایسی جائیدادوغیرہ سےنفع اٹھاناجائزنہ ہوگا،یہ مکمل رقم یکمشت صدقہ کرنا بس میں نہ ہوتو اس کا محتاط اندازہ کرکےلکھ لےاورحسبِ استطاعت صدقہ کرناشروع کردے،اوریہ عزم کرلےکہ میں یہ ساری رقم صدقہ کرونگاتو اس طرح عزم کرنےکےبعداوراس عزم کےمطابق حسبِ استطاعت صدقہ کرتے رہنےکےبعد اس کےلیےاس جائیداد کا استعمال جائز ہوگا۔
حوالہ جات
فقہ البیوع(2/1052)
"المال المغصوب،وما فی حکمہ مثل ما قبضہ الانسان رشوۃ او سرقۃ او بعقد باطل شرعا،لا یحل لہ الانتفاع بہ،ولا بیعہ و ھبتہ .............وان کان المال نقدا،واشتری بہ شیئا بالرغم من عدم الجواز ،فان اشتری بعین المال الحرام ،فلایجوز الانتفاع بمااشتراہ حتی یؤدی بدلہ الی صاحبہ .و ھذا القدر متفق علیہ بین الفقھاء."

فقہ البیوع(1/468)
"وکذالک تتعین النقود المغصوبۃ والمکتسبۃ بطریق محرم ،مثل الربا.ولذالک وجب ردھا علی مالکھا،فان تعذر ردھاالی مالکھا،وجب التصدق بھابقصد التخلص منھا،وایصال ثواب الصدقۃ الی مالکھا."

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
مصعب خان
شریک فقہ المعاملات المالیہ
14صفر1438ھ
مجيب
مصعب خان صاحب
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :56299
تاریخ اجراء :2016-11-15