ذاتی اختلافات کی بنیادپرکسی کوقادیانی/کافر مشہورکرنابہت بڑاگناہ ہے

سوال کا متن:

کیافرماتےہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کےبارےمیں ؟

گوٹھ حاجی محمدحسن کورائی میں حافظ محمد طارق ٹرسٹ جمعیت تعلیم القرآن کی طرف سےایک مکتب میں استاذمقررتھے،کچھ عرصہ بعد حافظ صاحب کوان کی اپنی بداخلاقی اوربےراہ روی کی وجہ سےجمعیت تعلیم القرآن کی طرف سےسبکدوش کیاگیا۔(لیٹرکی کاپی ساتھ لف ہے)

اس واقعہ کوموصوف حافظ صاحب نےہمارےخلاف ذاتی اختلافات کی بنیادپربطورپروپیگنڈہ استعمال کیا۔

موصوف نےہمارےوالدصاحب پرالزام لگایاکہ آپ نےاس مکتب کوبندکروایاہےاورمیرااخراج کروایاہے،اس بات کوباقاعدگی سےسوشل میڈیاکےذریعےمشہورکیا،جبکہ ہمارےوالدصاحب کااس مسئلہ سےکوئی تعلق نہیں،ہمارےوالدصاحب ایک عالم دین اورصاحب نسبت ہیں،حضرت مولاناناصرالدین خاکوانی سےاجازت بھی ہے۔

موصوف نےاس مسئلہ کوبنیاد بناکرہمارےوالدصاحب کی تصویرکومرزاغلام احمدقادیانی کی تصویرکےساتھ ملاکرفیس بک پرشیئرکیااورعلی الاعلان ہمارےوالدصاحب کوقادیانی کہاہے،جبکہ ہمارےوالدصاحب نےپوری زندگی ختم نبوت کےلیےکام کیاہے،اس سےہمارےدل سخت مجروح ہوئےہیں۔

موصوف اس بات کوبنیادبناکرمسلسل ہمارےخلاف پروپیگنڈاکررہاہے،اب اس مسئلہ کےپیش نظراس شخص کےمتعلق شرعاوقانونا کیاحکم ہے؟تفصیل سےوضاحت فرمادیں،آپ کاتہہ دل سےمشکوررہوں گا۔

 

جواب کا متن:

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص(جس نےمسلمان کوقادیانی مشہورکیاہے) کواحتیاطاتجدیدایمان ونکاح کرناچاہیے،کسی مسلمان کوکافرکہنابہت بڑاگناہ ہے،بلکہ اس سےخودکہنےوالےکےکافرہونےکاخطرہ ہوجاتاہے۔

حدیث میں آتاہےکہ جس نےکسی کوکافرکہااورجس کوکہاگیاہےوہ حقیقت میں کافرنہ ہوتواس کی اپنی بات اس پرلوٹ آئےگی۔

جہاں تک بات ہےقانون کی تواس کےبارےمیں قانون سےمتعلقہ ماہرین سےمشاورت کرلی جائے،البتہ علاقےکےعلماء اورموصوف کےخاندان کےدیگرحضرات کےذریعہ موصوف سےمل بیٹھ کربات کرنی چاہیے،اورسمجھاناچاہیےکہ جس طرح سوشل میڈیاپر غلط خبرکی تشہیرکی،بعدمیں اس خبرکےغلط ثابت ہونےکی صورت میں اس کااخلاقی فرض بنتاہےکہ اس کی تردیدمیں بھی بیان جاری کرے،اوراس پراس کومجبوربھی کیاجاسکتاہے۔

ملاحظہ:یادرہےکہ یہ جواب ایک فریق کےبیان کی بنیادپرلکھاگیاہے،اگرصورت حال واقع میں اس کےخلاف ہوتویہ جواب لاگونہ ہوگا۔


حوالہ جات

 "صحيح مسلم" 1 /  56:

عن عبد الله بن دينار أنه سمع ابن عمر يقول قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « أيما امرئ قال لأخيه يا كافر. فقد باء بها أحدهما إن كان كما قال وإلا رجعت عليه »۔

"شرح النووي على مسلم" 2 /  50:

فى تأويل الحديث أوجه أحدها أنه محمول على المستحل ۔۔ رجعت عليه أى رجع عليه الكفر والوجه الثانى معناه رجعت عليه نقيصته لأخيه ومعصية تكفيره ۔۔۔والوجه الرابع معناه أن ذلك يؤول به إلى الكفر۔


مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :73512
تاریخ اجراء :2021-07-06