قول صحابی رضی اللہ عنہ"کیاان احمقوں کی وجہ سے سنت چھوڑ دوں؟"کی تحقیق

سوال کا متن:

"ان احمقوں کی وجہ سے سنت چھوڑ دوں؟"حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ (فاتح ایران)نے جب ایران میں کسریٰ پر حملہ کیاتو اس نے مذاکرات کیلئے آپ کودربار میں بلایا،آپ وہاں تشریف لے گئے،جب وہاں پہنچے تو تواضع کےطورپر پہلے ان کے سامنے کھانالاکررکھا گیا،چنانچہ آپ نے کھانا شروع کیا،کھانے کےدوران آپ کے ہاتھ سےایک نوالہ نیچےگرگیا،حضورِ اقدسﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اگر نوالہ نیچے گرجائے تو اس کو ضائع نہ کرو،وہ اﷲ کا رزق ہے اور یہ معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رزق کے کون سے حصے میں برکت رکھی ہے؟اس لئے اس نوالے کی ناقدری نہ کرو،بلکہ اس کو اُٹھالو،اگر اس کےاوپر مٹی لگ گئی ہےتو اس کو صاف کرلو،اورپھر کھالو،چنانچہ جب نوالہ نیچےگراتو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کویہ حدیث یادآگئی اورآپ نےاس نوالے کو اُٹھانے کیلئےنیچے ہاتھ بڑھایا،آپ کےبرابرایک صاحب بیٹھےتھے،انہوں نےآپ کو کہنی مار کر اشارہ کیا کہ یہ کیا کررہے ہو،یہ تودنیا کی سپرطاقت کسریٰ کا دربار ہے،اگرتم اس دربار میں زمین پرگراہوانوالہ اُٹھا کرکھاؤگےتوان لوگوں کےذہنوں میں تمہاری وقعت نہیں رہے گی اور یہ سمجھیں گے کہ یہ بڑے ندیدہ قسم کےلوگ ہیں،اس لئےیہ نوالہ اُٹھا کرکھانے کاموقع نہیں،آج اس کو چھوڑدو،جواب میں حضرت حذیفہ بن یمان نے کیا عجیب جملہ ارشادفرمایا:أ أترک سنۃ رسول ﷲ ﷺ لہولاء الحمقی؟کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے سرکارِ دوعالمﷺکی سنت چھوڑ دوں؟ چاہے یہ اچھا سمجھیں یا بُرا سمجھیں،عزت کریں یا ذلت کریں،یا مذاق اُڑائیں،لیکن میں سرکارِ دوعالم ﷺ کی سنت نہیں چھوڑسکتا۔اس واقعے کی تحقیق و حوالہ درکار ہے۔

جواب کا متن:

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی کی کتاب  اسلام اور ہماری زندگی کے ج۷ ،ص۷۵ پر سؤال میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سےذکرکردہ پوری تفصیل مع مذکورہ جملہ مذکور ہے، لیکن کافی جستجو اور تلاش کے باوجود تا حال  اس کاحوالہ کسی جگہ نہیں مل سکا،البتہ ابن ماجہ کی ایک روایت میں معقل بن یسار رضی اللہ کے حوالے سے اس کے قریب الفاظ موجود ہیں، نیز اس قسم کا ایک جملہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ازار کو آدھی پنڈلیوں تک رکھنے کے بارےبھی منقول ہے،جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ میری محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ازارباندھنے کا طریقہ ہے۔


حوالہ جات

سنن ابن ماجه (2/ 1091)

عن معقل بن يسار، قال: بينما هو يتغدى، إذ سقطت منه لقمة، فتناولها، فأماط، ما كان فيها من أذى، فأكلها، فتغامز به الدهاقين، فقيل: أصلح الله الأمير، إن هؤلاء الدهاقين يتغامزون، من أخذك اللقمة، وبين يديك هذا الطعام، قال: إني لم أكن لأدع، ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم: لهذه الأعاجم «إنا كنا يؤمر أحدنا، إذا سقطت لقمته، أن يأخذها، فيميط، ما كان فيها من أذى ويأكلها، ولا يدعها للشيطان»

مصنف ابن أبي شيبة (5/ 167)

 عن عثمان بن عفان: كان إزاره إلى نصف ساقيه، فقيل له في ذلك، فقال: «هذه إزرة حبيبي يعني النبي عليه السلام»


مجيب
نواب الدین صاحب
مفتیان
محمد حسین خلیل خیل صاحب
سعید احمد حسن صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :73639
تاریخ اجراء :2021-07-13