فون پر نکاح کا حکم

سوال کا متن:

میں لا ہور کا رہا ئشی ہوں ،میری اور میرے ماموں کی بیٹی میں آج سے دو سال پہلے محبت شروع ہوئی،ہم آپس میں روزانہ باتیں کرتے ہیں کال پر،کبھی ویڈیو کال اور میسج پر روزانہ،ہماری دونوں کی والدہ کو یہ بات پتہ ہے۔ہم دونوں یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہیں ،ہم دونوں چاہتے ہیں کہ ہمارا نکاح ہو جائے، لیکن ہمارے والدین کہتے ہیں کہ ابھی پڑھو تین یا چار سال میں نکاح کریں گے،لیکن ہم آپس میں باتیں کر کے گناہ کے مرتکب ہو رہے اورگناہوں میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہے ،کیا میں اوردو گواہ اور ایک نکاح خواں ایک ہی محفل میں ہوں اور میری کزن کو کال پر لے لیں اور سب کچھ میری کزن کو سنایا جائے ،اور ایسے ہی ایجاب وقبول کر لیں،کیا ایسے نکاح کر سکتے ہیں(یا لڑکی کا بھی ایک ہی محفل میں ہونا ضروری ہے)،اور اس سب صورتحال کے بارے ہم اپنے والدین کو نہ بتائیں اور جب وہ اپنے مطابق تین یا چار سال بعد ہمارا نکاح کریں گےتب تو ہمارا نکاح پہلے سے ہی ہو چکا ہو گا،کیا ہم دوبارہ ان کے سامنے ایجاب وقبول کر سکتے ہیں،اس سے ہمارے پہلے سے ہوئے نکاح میں کو ئی مسئلہ تو نہیں ہو گا؟برائے مہربانی اگر درج بالا صورتحال میں نکاح نہیں ہو سکتا تو کوئی متبادل بتا دیں تاکہ ہم گناہ سے بچ جائیں،صبر کے علاوہ -برائے مہربانی اس ساری صورتحال کا فتویٰ عنایت فرمائیں -جزاک اللہ خیر

جواب کا متن:

نامحرم سے فون پر باتیں کرنے کے گناہ سے توبہ واستغفارلازم ہے،فون پر نکاح کا حکم یہ ہے کہ چونکہ لڑکی کا نکاح کی مجلس میں ہونا ضروری نہیں ،بلکہ اس کے وکیل کا مجلس نکاح میں ہونا بھی کافی ہے، لہذا اگر وہ کسی ایسے شخص کو جس کو وہ جانتی ہو اپنا وکیل بنادے جو اس کی طرف سے قبول کرے تو نکاح ہوجائے گا ،لیکن واضح رہے کہ نکاح کا معاملہ ایک خاندانی معاملہ ہے لہذا اس کو خاندانی طریقے سے ہی حل کیا جانا مناسب ہے۔ خود اپنے طور پر یہ معاملہ حل کرنے سے بعد میں بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں، لہذا کوشش کی جائے کہ خاندان کے کچھ ذمہ دار لوگ ضرور اس میں شامل ہوں۔


حوالہ جات

۔۔۔۔۔


مجيب
نواب الدین صاحب
مفتیان
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :74347
تاریخ اجراء :2021-10-06