مرغی ذبح کرنے کے بعد گرم پانی میں ڈبونا

سوال کا متن:

موجودہ دور میں ہوٹلوں میں ایک قسم کی مرغی (سجی) پکائی جاتی ہے،  جس کے لیے مرغیوں کو ذبح کرکے گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے، شرعاً کیا یہ حلال ہوگی یا نہیں؟

جواب کا متن:

              واضح رہے کہ مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اس کا پیٹ چیر کر آلائش وغیرہ نکال کر اسے گرم پانی میں ڈالا جائے، تو اس کے گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اگر آلائش وغیرہ نکالے بغیر گرم پانی میں ڈالا جائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر پانی میں تھوڑی دیر کے لیے ڈبو دیا جائے، اور اس کا درجہ حرارت جوش اور غلیان تک نہ پہنچا ہوا ہو، جس کی وجہ سے گرم پانی کا اثر صرف چمڑے  تک محدود رہے،تا کہ پر آسانی سے اتارے جائیں، تو ایسی صورت میں مرغی کا کھانا بلاکراہت جائز ہے، لیکن اگر گرم پانی ابلنے کی حد تک گرم ہو، اور اس پانی کے اندر مرغی کو اتنی دیر تک رکھا جائے، کہ اس کے نتیجے میں اندرونی نجاست گوشت کے اندر سرایت کرجانے کا غالب گمان ہو، تو ایسی مرغی کاکھانا جائز نہیں۔

            صورت مسئولہ کے مطابق سجی کے لیے اگر  مرغی کو ذبح  کرنے کے بعد آلائش سمیت ابلتے پانی میں رکھا جاتا ہو، اور اس کا درجہ حرارت جوش اور غلیان تک پہنچا ہوا ہو، اور کافی دیر اس میں چھوڑا جاتا ہو، جس سے اندرونی نجاست گوشت کے اندر سرایت  کر جانے کا غالب گمان ہو، تو ایسی مرغی کا کھانا حلال  نہیں،البتہ ایسی مرغی کو جس   گرم پانی میں رکھا جاتا ہو، اس کا درجہ حرارت جوش اور غلیان تک نہ پہنچا ہوا ہو،یا  اس  میں  تھوڑی دیر کے لیے محض پَر اتارنے کے لیے رکھاجائے، اور گرم پانی کا اثر صرف چمڑے تک محدود رہے، تو ایسی مرغی کا کھانا حلال   ہے۔

 

وعلى هذا الدجاج المغلي قبل إخراج أمعائها وأما وضعها بقدر انحلال المسام لنتف ريشها فتطهر بالغسل  "وعلى هذا الدجاج الخ" يعني لو ألقيت دجاجة حال غليان الماء قبل أن يشق بطنها لتنتف أو كرش قيل أن يغسل إن وصل الماء إلى حد الغليان ومكثت فيه بعد ذلك زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم لا تطهر أبدا إلا عند أبي يوسف كما مر في اللحم وان لم يصل الماء إلى حد الغليان أو لم تترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى سطح الجلد لإنحلال مسام السطح عن الريش والصوف تطهر بالغسل ثلاثا ( حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص:128)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431794