ذہن میں غلط خیالات کا آنا

سوال کا متن:

بندہ کے دل و ذہن میں غلیظ ترین خیالات آتے ہیں حتی کہ کئی دفعہ اللہ پاک کے بارے میں زبان سے گالیاں نکلی ہیں اور اب میں پریشان ہوں کہ کیا کروں، نہ چاہتے ہوئے بھی گالیاں نکل رہی ہیں، حالانکہ اللہ کے بارے میں میرا عقیدہ بالکل درست ہے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے۔

جواب کا متن:

             واضح رہے کہ برے وساوس کوبرا سمجھنا ،ان سے ڈرنا اور اپنے ایمان کے بارے میں فکر مند ہونا در حقیقت ایمان کی علامت ہے کیونکہ صاحب ایمان ہی ان سےتشویش میں مبتلا ہوتا ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایسے ہی وسوسوں کے متعلق صحابہ کرام نے بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ذکر کیا تھا اور ایمان کو خطرہ لاحق ہونے کا ذکر کیا تھاآپ ﷺنے ان کی پریشانی سن کر ان سے پوچھا:کیا واقعی ایسے وساوس تم کو آتےہیں؟صحابہ نے عرض کیا :جی ایسے وساوس آتے ہیں۔آپﷺنےفرمایا:"یہ تو صریح ایمان ہے"۔ لہذا محض وسوسوں کے آنے سے پریشان ہونے کی بجاۓ ان کو نظرانداز کرنا چاہیے اور ایسے وقت میں تعوذاور لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد کیا جاۓ۔

 

لَا ‌يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلَّا وُسعَهَا لَهَا مَا كَسَبَت وَعَلَيها ما كتَسَبَت رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذنَا إِن نَّسِينَا أَو أخطأنا ...البقرة 286

عن أبي هريرة قال :جاء ناس من أصحاب النبّي صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه:إنا نجد في انفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: "أوقدوجدتموه" قالوا :نعم قال: "ذلك صريح الإيمان"۔ وعنه، قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:"يأتي الشيطان أحدكم،فيقول:من خلق كذاو كذا؟حتي يقول له:من خلق ربك؟ فإذا بلغ ذلك؛ فليستعذ بالله ولينته"۔ (الصحيح لمسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان،ج1،ص179)

"فليستعذ بالله":طردا للشيطان إشارة إلي قوله تعالي:[إلا عبادك منهم المخلصين]وإيماء إلي قوله عليه الصلاة والسلام:"لا حول ولا قوة إلا بالله" فإن العبد بحوله ليس له قوة المغالبة مع الشيطان ومجادلته،فيجب عليه أن يلتجئ إلي مولاه ويعتصم بالله من الشيطان الذي أو قعه في هذا الخاطر۔ (مرقاة المفاتيح، كتاب الإيمان، ج: 1، ص:242)

لا يخرج الرجل من الإيمان إلا بجحود ما أدخله فيهِ ثم ما تيقن أنه ردة يحكم بها به، وما يشك أنه ردة لايحكم بها إذالإسلام الثابت لايزول بشك مع أن الإسلام يعلو۔ ومن تكلم بها (كلمة الكفر) مخطأ أومکرها لايکفرعند الکل ۔ (البحرالرائق، كتاب السير، باب الأحكام المرتدين، ج: 5، ص:209)ُ

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431779