مبیع تولنےکی ذمہ داری

سوال کا متن:

تجارت میں بعض وزنی اشیاکابذریعہ مزدورتول کیاجاتاہے،جس کی مزدوری بعض علاقوں میں مشتری سےلی جاتی ہے،اورفقہ کی اکثرکتابوں میں یہ ہےکہ مبیع تولنےکی اجرت بائع پرلازم ہے،جب کہ علامہ علی حیدرنے"دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام"میں اس مسئلےکی تشریح کرتےہوئےکہاہےکہ اس کادارومدارعرف پرہے،لہذا جہاں پرمبیع تولنےکی اجرت عرف میں مشتری پرہو،تووہاں مشتری کےذمہ لازم ہوگی،اورجہاں پرمبیع تولنےکی اجرت عرف میں بائع پرہو،توبائع کےذمہ لازم ہوگی،تواس مسئلہ میں عرف کہاں تک مؤثرہے؟

جواب کا متن:

         فقہی نقطۂ نظرسےمبیع کیل کرنے،وزن کرنےاورماپنےکی ذمہ داری بائع کی ہے،اس لیےکہ بیچنےکےبعدمبیع مشتری کےحوالےکرنابائع کی ذمہ داری ہے،اورمبیع مشتری کےحوالہ کرناتب ممکن ہے،جب کیل کی صورت میں اسےکیل کیاجائے،یاوزن کی صورت میں اسے وزن کیاجائے،یاماپنےکی صورت میں اسےماپاجائے،لہذاکسی مزدورکےذریعےمبیع کیل کرنےاوروزن کرنےکی صورت میں اس کی اجرت بائع پرلازم ہوگی،البتہ علامہ علی حیدراوردیگرفقہائےکرام نےلکھاہےکہ جن علاقوں میں عرف وعادت یہ جاری ہوکہ مبیع کیل کرنے،وزن کرنےاورماپنےکی اجرت مشتری سےوصول کی جاتی ہو،تووہاں پراس کی اجرت مشتری کےذمہ ہوگی۔چنانچہ جہاں پر مبیع تولنے،وزن کرنے اور ماپنے کی اجرت عرف میں مشتری پر ہو تو شرعاً بھی اجرت مشتری کے ذمہ لازم ہوگی۔

 

قال وأجرة الكيال وناقد الثمن على البائع أما الكيل فلا بد منه للتسليم وهو على البائع ومعنى هذا أذا بيع مكايلة وكذا أجرة الوزان والذراع والعداد(الھدایة،کتاب البیوع،فصل:ومن باع دارا،ج5ص29)

(المادة: 928):المصارف المتعلقة بتسلم المبيع تلزم البائع وحده مثلا أجرة الكيال للمكيلات والوزان للموزونات المبيعة تلزم البائع وحده . هذا في المكيلات والمعدودات والمذروعات والموزونات التي لم تبع جزافا فهذه المصارف تلزم البائع لأن الكيل والعد والذرع والوزن من متممات تسليم المبيع ولما كان تسليم المبيع لازما له فيلزمه ما يتم به نفقة ما يكون به تسليم المبيع لازمة له ( مجمع الأنهر ) . فإذا باع شخص حمل سفينة حطبا كل قنطار بعشرين قرشا فأجرة تسليم القنطار تلزم البائع إلا أن العمل في زماننا جار على أخذ الأجرة من المشتري حسب النظام المخصوص وكذلك أجرة إفراغ الحنطة في الأعدال ( الأكياس ) تعود على البائع وكذلك إذ اشترى ماء من السقاء بالقربة فصب الماء في إناء المشتري يعود على البائع.(دررالحکام فی شرح مجلةالأحکام،کتاب البیوع،المادۃ:289 ،ج1ص271)

ولو اشترى حنطة مكايلة فالكيل على البائع وصبها في وعاء المشتري على البائع أيضا هو المختار كذا في الخلاصة وكذا لو اشترى ماء من سقاء في قربة كان صب الماء على السقاء والمعتبر في هذا العرف.(الفتاوی الھندیة ،کتاب البیوع،الفصل السادس:فی مایلزم المتعاقدین من المؤنةفی تسلیم المبیع والثمن،ج3ص30)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431720