عقد مشارکہ میں عمل کرنے والے کاتنخواہ لینا

سوال کا متن:

 تین ساتھیوں نےشرکت کی بنیاد پر ایک سکول کھولا ہے، جس میں یہ شرط لگائی ہے کہ تینوں فریق وقت اور پیسے برابر لگائیں گے، اب دو فریق سکول چلا رہے ہیں اور وقت بھی دے رہے ہیں لیکن تیسرا فریق صرف پیسےدے کروقت نہیں دے رہا،تو کیا اس طرح پہلے دو فریق عمل کے عوض تنخواہ لے سکتےہیں یا نہیں؟

جواب کا متن:

            واضح رہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد کا باہم سرمایہ ملا کر کوئی معاملہ یا کاروبار  شروع کر نے کا نام شرکت ہے،اس میں نفع کا تعین حصص اور عمل کے اعتبار سے ضروری ہے،مثلانفع دونوں کےدرمیان آدھا آدھا ہوگا، یا  مثلا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصداور دوسرے کے لیے چالیس فیصد، یا دونوں کے سرمایہ کے تناسب سےتقسیم ہوگا،یا ایک فریق زیادہ محنت کرتا ہو،یاکاروبار کو وقت زیادہ دیتا ہو تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانا درست ہے۔

            صورت مسؤلہ کے مطابق اگر عقد اس بات پر ہوا  ہوکہ شرکاء میں سے ہر شریک وقت اور پیسہ برابر لگائے گا،اور منافع بھی سرمایہ کاری  کے تناسب سے تقسیم ہوگا، جبکہ شرکت سے ہٹ کر سکول میں اضافی خدمات سرانجام دینے والے کےلیےتنخواہ شرط کی جائے،تو شرعا اس کی گنجائش ہے۔

 

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ۔۔۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ.  (سنن أبو داؤد، باب الصلح، جلد:2، رقم الحديث: 3594)

وقال الحافظ العيني رحمه الله تعالى: وقيل: هاهنا نظران: الأول في قوله حيث لا يجب الأجر كيف يقول لا يجب، لأنه قد وجب وقبض وهو نصف الطعام، ثم يقول لأن المستأجر ملك الأجر. والثاني في قوله لأن ما من جزء يحمله إلا وهو عامل لنفسه نظر، فإن هذا ممنوع (إلى) ولكن الحق أن الجزء اللذي لشريكه ليس هو عاملا فيه لنفسه بل لشريكه فهو فى الحقيقة عامل لنفسه وعامل لشريكه فأخذه الأجرة في مقابلة عمله لشريكه۔ (البناية شرح الهداية، كتاب الأجارة، ج:7، ص: 322)

‌إذا ‌شرطا ‌الربح ‌على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا۔ (بدائع الصنائع، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:62)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431713