1. دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

بارانی اور نہری پانی سے سیراب شدہ زمین میں عشر

سوال

ہمارے علاقے میں نہر کے ذریعے کھیتوں کی آب پاشی  کی جاتی ہے اور نہر کا آبیانہ ( ٹیکس) نہیں ہے، اور فصل پر صرف کھاد اور ٹریکٹر کا خرچہ آتا ہے، تو کیا اس فصل سے  ہم عشر ادا کریں گےیا نصف عشر؟ نیز وہ بارانی زمینیں جس پر صرف ٹریکٹر اور کھاد کا خرچہ آتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

           واضح رہے کہ کھیتوں میں عشر اور نصفِ عشر کے مسئلے کا دارومدار زمین کی آب پاشی کے نظام ،یعنی سیرابی کے دوران پیش آنے والی محنت اور مشکلات کی نوعیت پر ہے ۔ اگر کسی زمین کو بارش یا قدرتی چشموں کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو،تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ یعنی عشر واجب ہوگا اور اگر کسی زمین کی سیرابی کے لیے پانی کو  محنت کرکے یا قیمت دے کر حاصل کیا جاتا ہو ،جیسے: ڈول کے ذریعے کنویں سے پانی نکالنا ،رہٹ یا  ٹیوب ویل کے ذریعے سے پانی حاصل کرنا ، یا نہر کا پانی جو زمین سے دور ہو اور زمین تک پہنچانے میں مشقت اٹھانی پڑتی ہو  ،یا ان نہروں کے پانی کا حکومت کو محصول دیا جاتا ہو ،تو ایسی زمین کی پیداوار میں   بیسواں حصہ یعنی نصفِ عشر واجب ہوگا ۔

          صورتِ مسئولہ میں اگرنہروں پر حکومت کی طرف سے محصول نہ ہو ،تو دیکھا جائے گا اگر نہر کا پانی زمین تک پہنچانے کے لیے  نالہ وغیرہ بنانے میں محنت ومشقت  کرنی پڑتی ہو یا اس پر مالی خرچہ آتا ہو ، تو اس کی پیداور میں بیسواں حصہ یعنی نصفِ عشر واجب ہوگا ،لیکن اگر نہر زمین کے قریب ہو اور نہر کا پانی زمین تک پہنچانے کے لیے  نالہ وغیرہ بنانے میں کوئی مشقت نہ  کرنی پڑے  اور نہ ہی اس پر کوئی مالی بوجھ اٹھانا پڑے  ،تو اس کی پیداور میں دسواں حصہ یعنی پورا عشر واجب ہوگا ۔

اور  وہ  زمین  جو بارش کے ذریعے سیراب کی جاتی ہے،  تو اس کی پیداوار میں عشر واجب ہے۔

 

(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر۔۔۔ (و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة (الدر المختار مع تنوير الأبصار،كتاب الزكوة ، باب العشر،ج: 3ص: 265)

ثم ماء العشر ماء البئر حفرت في أرض العشر، وماء العين التي تظهر في أرض العشر، وكذلك ماء السماء، وماء البحار العظام عشري(الفتاوى الهندية ،  کتاب الزکوۃ ، الباب السادس في زكوة الزروع والثمار ، ج:1 ص: 268)


ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431700


فتوی پرنٹ