فٹ بال کھیلنے کا حکم اور فٹ بالر کی امامت

سوال کا متن:

1- فٹ بال گیم شرعا کیسا ہے؟  فٹ بال کے دوران لوگ سترِ عورت نہیں چھپاتے تو ایسا گیم کرنا اور اس کو دیکھنا اور اس کا تماشا کرنا شرعاً کیسا ہے؟2-جو شخص ایسا گیم کھیلتا ہے ، پھر وہ مسجد میں امامت کرتا ہے تو اس کی  اقتدا  کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن:

            شریعتِ مطہرہ میں جس کھیل پر نہی وارد ہوئی ہو اُس کا کھیلنا جائز نہیں۔ اسی طرح جس کھیل میں کسی قسم کی جسمانی  صحت یا تفریح کا کوئی فائدہ نہ ہو تو محض لہو میں داخل ہونے کی وجہ سے اس کا کھیلنا بھی ممنوع ہے، لیکن جس کھیل میں کوئی فائدہ ہو  اور اس پر نہی بھی وارد نہ ہوئی ہوتو ایسا کھیل جائز ہے، بشرط یہ کہ وہ کسی معصیت پر  مشتمل نہ ہو۔

            لہذا صورتِ مسئولہ میں(1)  فٹ بال گیم کھیلنافی نفسہ  جائز ہے، لیکن اگر فٹ بال کھیلنے والا ستر نہ چھپاتا ہو تواس پر گناہ گار ہوگا ۔ جہاں تک فٹ بال  کھیل کے تماشے  کا تعلق ہے تو تفریح اور طبیعت میں نشاط پیدا کرنے کی غرض سے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اس میں اس طرح مشغول ہونے سے احتراز  ضروری ہے کہ جس کی وجہ سے فرض نماز یا دیگر احکامات متاثر ہوتے ہوں ۔

2-اگر کوئی شخص کھیل  کے دوران اپنا ستر نہ چھپاتا ہو تو اگراس سے افضل  شخص  موجود ہو  تو اس کی اقتدا کرنا مکروہ ہے ،  کیونکہ ستر چھپانا واجب ہے، لیکن اگر اس سے افضل موجود نہ ہو تو اس کی اقتدا  میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

 

وأخرج عبد بن حميد وابن أبي الدنيا في ذم الملاهي والبيهقي في الشعب عن القاسم أنه قيل له هذه النرد تكرهونها فما بال الشطرنج قال كل ما ألهى عن ذكر الله وعن الصلاة فهو من الميسر۔(مرقاة المفاتيح، كتاب اللباس، باب التصاوير، الفصل الثالث، رقم:4512، ج:8، ص:281)

 وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم تشتمل على معصية أخرى، ومالم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه ودنياه۔(تكملة فتح الملهم، باب تحريم اللعب بالنرد شير، حكم الألعاب في الشريعة، ج:4، ص: 436)

ويجوز أن ينظر الرجل إلى الرجل إلا إلى عورته۔۔۔ وعورته ما بين سرته حتى تجاوز ركبته۔ (الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب الثامن في ما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل، ج:5، ص:378)

(و) كره (كل لهو) لقوله - عليه الصلاة والسلام – "كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه" قال ابن عابدين: قوله (وكره كل لهو) أي كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعه كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة لأنها زي الكفار۔(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، ج:9، ص:566)

قوله ( وكره إمامة العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا ) بيان للشيئين الصحة والكراهة۔ أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ومن السنة حديث صلوا خلف كل بر وفاجر۔۔۔ فالحاصل أنه يكره لهؤلاء التقدم ويكره الاقتداء بهم كراهة تنزيه فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد وينبغي أن يكون محل كراهة الاقتداء بهم عند وجود غيرهم وإلا فلا كراهة كما لا يخفى (البحر الرائق، کتاب الصلوة، باب الإمامة، ج:1، ص:609)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431695