ڈراپ شپنگ(Drop shipping) کاحکم

سوال کا متن:

 آج کل ڈراپ شپنگ میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ہم اپنے سٹور کی ویب سائٹ پر اشیا کی تصاویر ان کی خصوصیات ، مدت اور واپسی کی شرائط  لگادیتے ہیں ،کسٹمر ان تمام چیزوں کو پڑھ کر آن لائن خریداری کا آڈر دیتا ہے اور قیمت ویب سائٹ کو بذریعہ کریڈٹ کارڈ ادا کردیتا ہے اور کبھیCASH ON DELIVERY دیتا ہے ،یہ آرڈر بطورِ پیش کش کے ہم اپنے پاس ریکارڈ کرلیتے ہیں اور اس ٹرانزیکشن کو مکمل کرنے ، یعنی اس پیشکش کے جواب میں اشیا کی ڈیلیوری کے لیے ہمارے پاس کم ازکم چوبیس گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ پانچ دن کا وقت ہوتا ہے ۔اب وہ چیزیں ہمارے پاس موجود نہیں ہوتیں، لہذا اس دوران ہم کسی آن لائن ڈیلر، ہول سلیر یا سپلائیر سے اس چیز کی خریداری کرکےاپنے کسٹمرکو ڈیلیور کردیتے ہیں ۔یاد رہے کہ ڈیلر یا سپلائیر سے خریداری اس طرح ہوتی ہے کہ ہم ڈیلر یا سپلائیر کو اپنے کسٹمر کا آڈر بھیج دیتے ہیں ،ڈیلر وہ چیز براہ راست ہمارے کسٹمر کو بھیج دیتا ہے اور اس کی قیمت ہمارے کھاتے میں درج کرلیتاہے جو ہم اس کو اسی وقت آن لائن یا کیش کی صورت میں ادا کردیتے ہیں اور بعض اوقات کچھ دن کی مہلت کے بعد ادائیگی کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

             شرعی نقطہ نظر سے خریدوفروخت کے معاملے میں اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ جس چیز کی خریدوفروخت ہورہی ہو وہ عاقدین کےمابین معاملہ طے پاتے وقت بائع(فروخت کنندہ)کی ملکیت میں ہو ، نیز وہ چیز معلوم و متعین ہو اور فروخت کنندہ کے قبضہ میں بھی ہو ، چنانچہ اگر مبیع (جو چیز فروخت کی جا رہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو، بلکہ محض اشتہار یا تصویر دکھلاکر وہ چیز فروخت کی جائے اور بعد میں وہ چیز کسی اور دکان، سٹور وغیرہ سے خرید کر مشتری (خریدار) کو دی جائے تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ، البتہ اگر اس چیز کو ملکیت و قبضہ میں لانے کے بعد فروخت کیا جائے تو یہ جائز ہوگا۔

           صورتِ مسئولہ میں فروخت کی جانے والی چیز  بوقتِ فروخت چونکہ بائع (فروخت کنندہ) کی ملکیت میں نہیں ہوتی ، اس لیے یہ بیع جائز نہیں ، نیز چونکہ فروخت کی جانے والی چیز فروخت کنندہ کے قبضہ میں بھی نہیں آتی ، بلکہ متعلقہ ڈیلر یا کمپنی اس چیز کو براہ راست گاہک کی طرف بھیج دیتی ہے ،لہذا اس بنا پر بھی یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں۔

البتہ اس کے جواز کی یہ صورت بن سکتی ہےکہ گاہک سے آرڈر لیتے وقت حتمی معاملہ نہ کیا جائے، بلکہ فروختگی کا وعدہ کیا جائے، پھر وہی چیز متعلقہ کمپنی سے خرید کر خود یا وکیل کے ذریعے قبضہ میں لی جائے پھر کسٹمر سے معاملہ کیا جائےخواہ دوبارہ ایجاب وقبول ہو یا تعاطی کے ذریعے بیع ہوجائے۔یا پھر  آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ڈیلر کی جانب سے وکیل بالبیع بن جائے اور ان کے لیے وہ چیز فروخت کرے، جبکہ اپنے لیے کمیشن یا متعین اجرت کا معاہدہ کرے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

 

عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَطْلُبُ مِنِّى الْبَيْعَ وَلَيْسَ عِنْدِى أَفَأَبِيعُهُ لَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« لاَ تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔(السنن الكبري للبيهقي ، كتاب البيوع، باب من قال لايجوز بيع الغائبة، ج:8 ص:95، دارالفكر)

وَمِنْهَا وهو شَرْطُ انْعِقَادِ الْبَيْعِ لِلْبَائِعِ أَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ عِنْدَالْبَيْعِ فَإِنْ لم يَكُنْ لَا يَنْعَقِدْ وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَ ذلك بِوَجْهٍ من الْوُجُوهِ إلَّا السَّلَمَ خَاصَّةً وَهَذَا بَيْعُ ما ليس عِنْدَهُ وَنَهَى رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم عن بَيْعِ ما ليس عِنْدَ الْإِنْسَانِ وَرَخَّصَ في السَّلَمِ۔۔۔(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض۔۔۔(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض.( بدائع الصنائع، كتاب البيوع، فصل واماالذي يرجع الي المعقود عليه، ج:7ص:35) 

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431694