1. دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

دوران ڈيوٹى نماز باجماعت،سنت موکدہ اور نفل نماز پڑھنے کا حکم

سوال

میں موٹر وے پولیس میں ہوں اور موٹر وے  پرہماری 8 گھنٹے گشت کی ڈیوٹی ہوتی ہے، اور گشت کے دوران چلتے چلتے اگر کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، تو اسکی مدد کرتے ہیں یا اگر کنٹرول سے کوئی کال آجائے تو اسکے مطابق کام کرتے ہیں یا کوئی ٹریفک وائلیشن کرے تو اس کو جرمانہ کرتے ہیں، دوران گشت حالات کے مطابق کبھی کہیں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی روانہ ہوتے ہیں اور اسی طرح 8 گھنٹے گزارتے ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے (1) کہ رات کی ڈیوٹی میں جب ہم کسی ایگ جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں، تو قریبی مسجد میں یا گاڑی کے ساتھ روڈ پر کھڑے ہو کر باجماعت نماز اور سنت موکدہ پڑھ سکتے؟ جب کہ دوسرا ساتھی گاڑی میں موجود ہوتا ہے (2) اور اسی تہجد یا اشراق پڑھ سکتےہیں ؟ نماز باجماعت ،سنت موکدہ ،تہجد یا اشراق پڑھتے ہوئے ڈیوٹی پر مامور ساتھی افسر کی ایک آواز پر بندہ آسانی سے گاڑی میں پہنچ سکتا ہے، یعنی کہ نوافل اور باجماعت نماز سے صرف افسران بالا کے حکم کی عدولی ہو جاتی ہے، جبکہ ڈیوٹی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، کیونکہ دوسرا ساتھی ایک آواز کی دوری پرموجود ہوتا ہے ۔نوٹ! افسران بالا کے احکامات کے مطابق نماز روڈ پر ہی پڑھیں گے ۔(3)توکیا ہم روڈ کے کنارے نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب

       واضح رہے کہ پولیس ،فوج اور اسی طرح  دوسرے اداروں کےملازمین کی حیثیت فقہی اصطلاح میں"اجیر خاص"کی ہے۔وہ اپنے محکمہ کی جانب سے دی گئی ہدایات کےمطابق  طے کردہ پورے وقت میں مقررہ جگہ پر ڈیوٹی کے پابند ہیں، البتہ نماز جیسے اہم فريضہ کی ادئیگی کے لیےمسلمان ملازم کے لیے فرض نماز اور سنن موٴکدہ کے بقدر وقت ملازمت کے دورانیہ سے مستثنی ہوتا ہے۔

      صورت مسئولہ کے مطابق (1-3)موٹروے پولیس کے اہلکاراگر ایسی جگہ پر موجود ہوجہاں مسجد قریب ہوتوڈیوٹی کے وقت میں فرض نمازوں کے لیے مسجد جاکر باجماعت نمازادا کرنی چاہیے، لیکن اگر مسجد دور ہو تو روڈ کے کنارے کسی مناسب جگہ پراپنی جماعت کرالی جائےیااگرجماعت کےلیے کوئی نہ ملے توانفراداً نماز پڑھ لی جائے۔

سنتِ مؤکدہ کو بھی بغیر کسی شدید عذر کے نہیں چھوڑنا چاہیے،تاہم سنن موٴکدہ کی ادائیگی میں مسنون قراءت پر ہی اکتفا کی جائے،اور جلد از جلدنمازسےفارغ ہوکرواپس ڈیوٹی کی جگہ پہنچنےکا اہتمام ہو۔

(2)ڈیوٹی کے دوران نوافل اشراق،تہجدوغیرہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے چاہےدوسرا ساتھی ڈیوٹی کےلیے موجود بھی ہو۔

 

عن عبد الله بن مسعود قال: حافظوا على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن، فإنهن من سنن الهدى، وإن الله عز وجل شرع لنبيه۔ صلى الله عليه وسلم ۔سنن الهدى، ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق بين النفاق، ولقدرأيتنا وإن الرجل ليهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف، وما منكم من أحد إلا وله مسجد في بيته،ولوصليتم في بيوتكم،وتركتم مساجدكم تركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم كفرتم(سنن أبي داود،کتاب الصلاة،باب فی التشدید فی ترک الجماعة)

الأجیر علیٰ قسمین: الأوّل الأجیر الخاص، وهو الذی استوجر علیٰ أن یعمل للمستأجر فقط، کالخادم مشاهرةً عملاً موقتاً بمدة معلومة.(شرح مجلةالأحكام،لسلیم رستم باز،ج:1،ص:236،رقم المادة:234)

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا ‌أن ‌يصلي ‌النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى  (ردالمحتارعلی الدرالمختار،کتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مطلب ليس للأجيرالخاص أن‌يصلي ‌النافلة،ج:5،ص:69)


ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431691


فتوی پرنٹ