طلاق رجعی كے بعد طلاق كنائی اورمزيد ايك طلاق رجعی كا حكم

سوال کا متن:

 میرے شوہر نے مجھے ایک بار پہلے صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دی کہا کہ”میں تجھے ایک طلاق دیتا ہوں“اور پھر بعد میں رجوع کیا لیکن کچھ دن بعد پھر لڑائی میں الزامات لگاتے ہوئےمجھے کہا کہ ” تو فلاں فلاں سے نکاح کر لے میں تجھے چھوڑتا ہوں“اسی لڑائی کے آخر میں کہا کہ ” میں تجھے دوسری طلاق دے رہاہوں یہ بچے گواہ ہیں اور باقی پیپر تجھے بھجوا دوں گا “  (1)اب اس صورت میں شرعاً کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ (2)اورکیا عورت کے گھر والوں کے لئے شرعاً کوئی طریقہ ہےکہ وہ ایسے شخص سے کسی طرح اپنی بہن کا بدلہ لے سکیں؟ (3) اب وہ آدمی معافی مانگتا ہے کہ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟(4)کیا عورت شوہر کے گھر اوپر والی منزل میں رہ سکتی ہے جبکہ راستہ بھی الگ ہو؟ (5) اگر طلاق ہوگئی ہے تو عدت کا کیا حکم ہے کیسے کہاں اور کتنی گزارنی ہے؟ براہ کرم تمام جزئیات کا جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب کا متن:

             واضح رہے کہ صریح طلاق دینے کے بعد اگر رجوع کر لیا جائے تب خاوند آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا مالک ہوتا ہے، اور کنائی الفاظ لڑائی کے دوران استعمال کرنا جبکہ ان الفاظ میں طلاق کے علاوہ دوسرے کسی معنی کا احتمال نہ ہو تو نیت کے بغیر بھی  اسے طلاق شمار کیا جاتا ہے جس سے عورت پر طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اگر طلاق باِئن کے بعد  عدت کے دوران ہی کوئی اور طلاق دی تو وہ طلاق  بھی واقع ہوگی۔

           طلاق والی عورت کی عدت، اگر اسے حیض آتا ہو تو تین مکمل حیض ہیں اور اگر حیض نہ آتا ہو تب تین قمری مہینے اس کی عدت ہوگی اور اگر مہینے کے درمیان طلاق دی ہو تب نوےدن عدت گزارنا لازمی ہے اور حاملہ کی عدت بچہ جننے تک ہوتی ہے۔ عدت خاوند کے گھر  میں گزارنا لازمی ہے لیکن اس شرط پر کہ عورت کو شوہر کی جانب سے دست درازی یا اظہار فسق کا  کوئی خدشہ نہ ہو اور خاوند سے مکمل طور پر الگ ہو ورنہ تو قریبی محفوظ جگہ پر منتقل ہو کر وہیں عدت گزارے۔

         صورت مسئولہ میں بشرط صدق و ثبوت اگر خاوند نے پہلے سے ایک طلاق دےکر  رجوع کیا ہو اور پھر دوسرے موقع پر کہا ہو کہ  ” تو فلاں فلاں سے نکاح کر لے میں تجھے چھوڑتا ہوں“  اور پھرتیسری مرتبہ ایک اور طلاق صریحی بھی دی ہو  تو ایسی صورت میں عورت کی تین طلاقیں پوری شمار ہوں گی جس کے بعد عورت پر عدت گزارنا لازمی ہےاور عدت کی مدت میں عورت کی حالت کا اعتبار کرتے ہوئے  عدت گزارنا لازمی ہے یعنی تین حیض یا تین مہینے یا نوے دن، اور یہ عدت خاوند کے گھر میں گزارنا لازمی ہے بشرطیکہ فتنہ وفساد میں پڑنے کا خطرہ نہ ہو۔

          تین طلاقیں ہو جانے کے بعد شوہر کی معافی سے دوبارہ وہ عورت بیوی نہیں بنتی اور طلاق دینے کا حق چونکہ شریعت نے خاوند کو دیا ہے جس کی بنا پر عورت کے گھر والے  محض طلاق دینے پر ہی خاوند سے کوئی مؤاخذہ نہیں کر سکتے  البتہ مہر جو کہ بیوی کا حق ہے اگر ادا نہ کیا ہو تو اس کی ادائیگی خاوند پر لازمی ہوگی۔

          البتہ تین طلاقوں  کے بعد دونوں کا ایک ساتھ رہنا  شرعا جائز نہیں تاہم اگر دونوں عمر رسیدہ ہاور ان کا مکان ایسا  ہو کہ دونوں اس میں اپنی جوان اولاد کے ساتھ اجنبیوں کی طرح الگ الگ رہ سکتے ہوں اور فتنہ و فساد کا اندیشہ بھی نہ ہو تب ایک گھر کی دو منزلوں میں رہنا جائز ہو گا ورنہ بصورت دیگر علیحدگی لازمی ہوگی۔ 

 

ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد۔ (الدر المختار على صدر ردالمحتار، كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:4، ص:532،531) 

وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية. وألحق أبو يوسف -رحمه الله تعالى-بخلية وبرية وبتة وبائن وحرام أربعة أخرى۔( الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ج:1، ص:442)

الطلاق الصريح يلحق الطلاق الصريح بأن قال أنت طالق وقعت طلقة ثم قال أنت طالق تقع أخرى ويلحق البائن أيضا بأن قال لها أنت بائن أو خالعها على مال ثم قال لها أنت طالق وقعت عندنا۔( الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ج:1، ص:445)

وأما بيان أنواع العدد فالعدد في الشرع أنواع ثلاثة: عدة الأقراء، وعدة الأشهر، وعدة الحبل أما عدة الأقراء فلوجوبها أسباب منها: الفرقة في النكاح الصحيح سواء كانت بطلاق أو بغير طلاق۔۔۔وأما عدة الأشهر فنوعان: نوع يجب بدلا عن الحيض، ونوع يجب أصلا بنفسه أما الذي يجب بدلا عن الحيض فهو عدة الصغيرة والآيسة والمرأة التي لم تحض رأسا في الطلاق، وسبب وجوبها هو الطلاق۔۔۔وأما عدة الحبل فهي مدة الحمل، وسبب وجوبها الفرقة أو الوفاة۔ ( بدائع الصنائع، كتاب الطلاق، فصل فيما يتعلق بتوابع الطلاق، ج:4 ص:415-419)

ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.(الدر المختار على صدر ردالمحتار، کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج:5، ص:227)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431732