خلفائے راشدین کا انتخاب

سوال کا متن:

خلفائے راشدین میں سے دو خلفاء نبی اکرمﷺ کے سسر جب کہ دو خلفاء داماد ہیں، تو خلفائے راشدین کے لئے صرف انہی کا انتخاب کیوں ہوا؟

جواب کا متن:

               خلفائے راشدین  میں سے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے اتفاق اور مشورہ سے ہوا ہے نبیﷺ نے اپنی زندگی میں صریح الفاظ کے ساتھ کسی کو اپنا خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا البتہ صحابہ کے اس سوال پر کہ اگر کوئی ایسا امر پیش آیا کہ جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو اور نہ سنت میں تو اس معاملہ میں آپﷺ ہمیں کیا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا اس کو بصیرت رکھنے والوں اور صالحین کے مشورے سے طے کرو اور اس میں تنہا اپنی رائے سے فیصلہ نہ کرو۔

               حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپﷺ نے بیماری کی حالت میں  اپنی جگہ امام مقرر کیا  جس میں  اشارہ تھا کہ جب امامت صغری کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تو امامت کبری کے لئے بھی وہ سب سے موزوں ہوں گے، اس كے علاوه وه تمام صحابہ میں علم اور بزرگی کے اعتبار سے بھی زیادہ تھے،  چنانچہ نبیﷺ کی رحلت کے بعد  سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو انصار اور مہاجرین کے اتفاق سے خلیفہ منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو  بکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے مشورہ سے باقاعدہ تحریر لکھ کر اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد چھ بڑے صحابہ کو خلیفہ بنانے کی ہدایت فرمائی ان حضرات نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا ، اور آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے ہوا۔

               اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین کا انتخاب نبی کریمﷺ کے ساتھ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں ہوا نہ ہی آپﷺ کی کسی صریح حدیث سے ان کا انتخاب کیا گیا بلکہ ان کی علمیت، شرافت،  بزرگی، تجربہ، دیانت اور طویل صحبت کی بنیاد پر صحابہ کرام کے مشورہ اور اتفاق سے ہوا۔

 

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ»  فَعَادَتْ، فَقَالَ: «مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحيح البخاري، ج:1، ص: 441)

خِلَافَةُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَتْ وَفَاةُ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي يَوْمِ الِاثْنَيْنِ عَشِيَّةً، وَقِيلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَدُفِنَ مِنْ لَيْلَتِهِ، وَذَلِكَ لِثَمَانٍ بَقِينَ مِنْ جُمَادَى الْآخِرَةِ سَنَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ بَعْدَ مَرَضٍ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُصَلِّي عَنْهُ فِيهَا بِالْمُسْلِمِينَ، وَفِي أَثْنَاءِ هَذَا الْمَرَضِ عَهِدَ بِالْأَمْرِ مِنْ بَعْدِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخِطَابِ، وَكَانَ الَّذِي كَتَبَ الْعَهْدَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانِ، وَقُرِئَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَأَقَرُّوا بِهِ وَسَمِعُوا لَهُ وَأَطَاعُوا۔(البداية والنهاية، ج: 5، ص: 84)

وخلافتهم أي نيابتهم عن الرسول في إقامة الدين، بحيث يجب على كافة الأمم الاتباع، على هذا الترتيب أيضا، يعني أن الخلافة بعد رسول الله ﷺ لأبي بكر، ثم لعمر، ثم عثمان، ثم لعلي رضي الله عنهم، وذلك لأن الصحابة قد اجتمعوا يوم توفي رسولﷺ في سقيفة بني ساعدة، واستقر رأيهم بعد المشاورة والمنازعة على خلافة أبي بكر رضي الله عنه، فاجمعوا على ذلك۔۔۔ ثم إن أبا بكر رضي الله عنه لما يئس من حياته، دعا عثمان رضي الله عنه، و أملى عليه كتاب عهده لعمر رضي الله عنه۔۔۔ ثم استثهد عمر، وترك الخلافة شورى بين ستة: عثمان، وعلي، وعبد الرحمن بن عوف، وطلحة، وزبير، وسعد ابن أبي وقاص رضي الله عنهم، ثم فوض الأمر خمستهم إلى عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه، ورضوا بحكمه، فاختار عثمان رضي الله عنه، وبايعه بمحضر من الصحابة،فبايعوه وانقادوا لأوامره۔۔۔ ثم استثهد وترك الأمر مهملا، فأجمع كبار المهاجرين و الأنصار على علي رضي الله عنه، والتمسوا منه قبول الخلافة وبايعوه، لما كان أفضل أهل عصره وأولاهم بالخلافة۔(شرح العقائد، خلافة الخلفاء الراشدين، ص: 350)

ماخذ :دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور
فتوی نمبر :14431730