سوال
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرڈیلیوری کے اخراجات مبیع کی قیمت کا حصہ بنایا جائے جیسا کہ ہوم ڈیلیوری میں ہوتا ہے تو معاملہ پر کیا اثر پڑے گا؟جواب
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ کی رو سے بیع نام ہے ایک مال کو دوسرے مال سے باہمی رضامندی کے ساتھ تبدیل کرنے کا اور جو بیع فقہائے کرام کے بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو تو وہ درست ہوتا ہے۔
سوال میں مذکور مسئلہ میں دو صورتیں بنتی ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ بائع مشتری سے قیمت بیان کرے اور کہے کہ مبیع کو مشتری کےگھرپر حوالہ کروں گا تو اس صورت میں بائع پر لازم ہوگا کہ مبیع مشتری کو پہنچا دے۔اور طے شدہ قیمت سے زیادہ پیسے نہ لے۔البتہ اگر پہلے سے قیمت بتاتے ہوئےاس میں ڈیلیوری اخرجات کو بھی قیمت کا حصہ بنا دیا تھا تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بائع مشتری سے قیمت الگ بیان کرے اور یہ واضح کہے کہ ڈیلیوری کے اخراجات مشتری پر ہوں گے اور مشتری اس پر راضی ہو تو یہ معاملہ بھی شرعا درست ہوگااور مشتری کو قیمت کے ساتھ ساتھ ڈیلیوری اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے۔
"إذا بيع مال علي أن يسلم في محل كذا لزم تسليمه في المحل المذكور۔۔۔۔۔وبهذا ظهر أن قول المجلة "لزم تسليمه في المحل المذكور"محمول علي ماإذا كان ذلك المحل المشروط فيه التسليم في المصرالذي فيه المبيع۔۔۔اللهم إلا أن يكون هذا الشرط قدصارمتعارفاعندأهل بلدة ،أو أكثر،فإنه يكون حينئذمعتبرا،والبيع به صحيحا في جميع الصور۔"(شرح المجلة كتاب البيوع،ج:2،ص:218)
"أما تعريفه فمبادلةالمال بالمال بالتراضي۔۔۔وأما ركنه فنوعان :أحدهماالإيجاب،والقبول،والثاني التعاطي۔(الفتاوى الهندية كتاب البيوع،الباب الأول ج:3،ص:5)